1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جیٹ طیارہ کرپشن، مودی سے استعفے کا مطالبہ

22 ستمبر 2018

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے فرانس کے ساتھ جنگی جیٹ طیاروں کے معاہدے میں بد عنوانی کے الزامات پر استعفے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ اس تناظر میں فرانس کے سابق صدر فرانسوا اولانڈ کے ایک بیان کا حوالہ دیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/35Kga
Nepal | BIMSTEC-Summit | Ankunft Premierminister Indien Narendra Modi
تصویر: Reuters/N. Chitrakar

بھارتی سیاسی جماعتوں نے وزیر اعظم مودی کو سن 2016 میں فرانسیسی طیارہ ساز کمپنی داسُو سے چھتیس رفائیل جنگی طیاروں کی خریداری میں بد عنوانی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے   کہ ان طیاروں کی قیمت اصل سے زیادہ  ادا کی گئی تھی اور خریداری کے عمل کو شفاف نہیں رکھا گیا تھا۔

حالیہ کچھ ماہ میں بھارت میں اپوزیشن جماعتوں نے یہ اعتراض اٹھایا ہے کہ عشروں سے اس کام کا تجربہ رکھنے والی سرکاری کمپنی کی جگہ معروف بھارتی بزنس مین انیل امبانی کی کمپنی ’ریلائینس ڈیفنس‘ کو یہ کانٹریکٹ کیوں دیا گیا۔

جمعہ بیس ستمبر کو سابق فرانسیسی صدر اولانڈ کے ایک بیان کے حوالے سے یہ خبر سامنے آئی تھی کہ جب وہ صدارتی دفتر میں تھے تب اس معاہدے کے وقت بھارتی حکومت نے داسُو فرم پر دباؤ ڈالا تھا کہ وہ یہ سودا امبانی کی ’ریلائنس ڈیفنس‘ کو دے۔

اولانڈ نے یہ بات فرانسیسی نیوز ایجنسی میڈیا پارٹ سے گفتگو میں کہی۔ میڈیا پارٹ نے اولانڈ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا،’’ ہمارے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ ہمیں یہ دباؤ قبول کرنا پڑا۔‘‘

Frankreich Kampfjet Kampfflugzeug Rafale
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Bob Edme

دفاعی معاہدوں کے بھارتی قوانین کے تحت کسی بھی غیر ملکی کمپنی کو طے پانے والی اپنی ڈیل کے کم سے کم تیس فیصد حصے کی سرمایہ کاری لازمی طور سے بھارت میں کرنی چاہیے۔

لیکن رفائیل طیاروں کی خریداری کے لیے داسو نے بھارتی سرکاری کمپنی ’ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ‘ کے بجائے جو عشروں سے جنگی طیارے بنانے کا کام کر رہی ہے، ریلائنس کمپنی کا انتخاب کیا۔

کانگریس کے سینیئر رہنما آنند شرما کے مطابق،’’اولانڈ کے بیان کے بعد بد عنوانی کے خلاف جنگ کا نعرہ لے کر سن 2014 میں اقتدار میں آنے والے مودی کے پاس ملکی وزیر اعظم رہنے کا کوئی اخلاقی جواز باقی نہیں رہا۔‘‘

ان الزامات کے تناظر میں وزیراعظم مودی کے دفتر اور ریلائنس کمپنی کی جانب سے ابھی تک کسی قسم کا کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا ہے۔

ص ح / ع ا / نیوز ایجنسی