1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جوہری ہتھیار کبھی نہیں بنائیں گے، ایرانی صدر

عاطف بلوچ19 ستمبر 2013

ایرانی صدر حسن روحانی نے ایک امریکی نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کبھی بھی جوہری ہتھیار نہیں بنائے گا۔ دوسری طرف تہران نے انسانی حقوق کی سرکردہ کارکن نسرین ستودہ سمیت متعدد سیاسی قیدیوں کو رہا کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/19kMJ
تصویر: Fars

ایرانی صدر حسن روحانی نے بدھ کو امریکی ٹیلی وژن ادارے این بی سی نیوز کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ ان کی حکومت کے پاس مکمل اتھارٹی ہے کہ وہ مغربی ممالک کے ساتھ اپنے جوہری پروگرام کے بارے میں مذاکرات کر سکے۔ تہران کے صدارتی محل سے این بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے روحانی نے مزید کہا کہ امریکی صدر باراک اوباما کی طرف سے ملنے والے حالیہ خط میں ’تعمیراتی اور مثبت‘ رویہ اختیار کیا گیا ہے۔ روحانی نے ان خطوط کے ذریعے اپنے امریکی ہم منصب کے ساتھ ہونے والی پیغام رسانی کو چھوٹی مگر اہم پیشرفت قرار دیا۔

Hassan Rohani MAI 2013
ایرانی صدر حسن روحانیتصویر: Behrouz/AFP/Getty Images

ایرانی صدر کی طرف سے یہ بیانات ایسے وقت پر سامنے آئے ہیں، جب وہ آئندہ ہفتے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے امریکا روانہ ہو رہے ہیں۔ اس اجلاس میں اصلاحات پسند مذہبی رہنما روحانی کا خطاب انتہائی اہم تصور کیا جا رہا ہے کیونکہ ان کے صدارتی منصب پر فائز ہونے کے بعد سے ایرانی پالیسیوں میں ممکنہ تبدیلیوں کے امکانات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔

امریکی نشریاتی نیٹ ورک این بی سی نے روحانی کے حوالے سے بتایا ہے کہ ان کی حکومت کسی بھی حالت میں جوہری ہتھیار نہیں بنائے گی۔ لیکن مغربی ممالک کو خدشہ ہے کہ تہران اپنے متنازعہ جوہری پروگرام کے ذریعے ایٹمی ہتھیار تیار کرنا چاہتا ہے۔ ایرانی حکام ماضی میں بھی ایسے الزامات مسترد کرتے رہے ہیں تاہم وہ اس حوالے سے مغربی ممالک کے خدشات دور نہیں کر سکے۔

اگست میں ایرانی صدر کا عہدہ سنبھالنے والے روحانی نے این بی ایس کے ساتھ گفتگو میں یہ بھی کہا کہ جوہری پروگرام سے متعلق عالمی برادری کے ساتھ جاری مذاکرات کے سلسلے میں انہیں مکمل اختیارات حاصل ہیں۔ عمومی طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ ایرانی جوہری پروگرام اور دیگر اہم معاملات کے بارے میں حتمی فیصلے کرنے کا اختیار ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو ہی حاصل ہے۔ ناقدین کے بقول خامنہ ای کی طرف سے تہران کے ایٹمی پروگرام سے متعلق جاری مذاکرات کے حوالے سے رواں ہفتے ہی لچک کا مظاہرہ کرنا، اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ بھی اس معاملے میں مغربی ممالک کے ساتھ کسی سمجھوتے پر پہنچنا چاہتے ہیں۔ خامنہ ای نے کہا تھا کہ جوہری ہتھیاروں کی تیاری کا عمل اسلامی اقدار کے منافی ہو گا۔

سیاسی قیدیوں کی رہائی

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ایرانی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ بدھ کے دن مجموعی طور پر گیارہ سیاسی قیدیوں کو رہا کر دیا گیا۔ ان میں شامل اور قریب تین سال قید میں رہنے والی نسترین ستودہ نے اپنی غیر متوقع رہائی کے بعد ٹیلی فون پر اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ جسمانی اور نفسیاتی طور پر اچھی حالت میں ہیں اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں گی۔ انہیں جنوری 2011ء میں قومی سلامتی کے منافی سرگرمیوں کے الزام میں گیارہ برس قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ ساتھ ہی اس خاتون وکیل پر یہ پابندی بھی عائد کر دی گئی تھی کہ وہ بیس برس تک پیشہ ور وکیل کے طور پر کام نہیں کر سکتیں۔

Nassrin Sotudeh Iran
انسانی حقوق کی سرکردہ کارکن نسرین ستودہتصویر: picture-alliance/dpa

یورپی یونین، اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے دباؤ پر جنوری میں ایرانی حکام نے ستودہ کو عارضی طور پر رہا بھی کر دیا تھا۔ بدھ کے دن اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے ستودہ نے اس یقین کا اظہار کیا کہ وہ اب ہمیشہ کے لیے آزاد کر دی گئی ہیں، ’’جس پولیس افسر نے مجھے میرے گھر پہنچایا، اس نے کہا کہ میں ہمیشہ کے لیے رہا کر دی گئی ہوں اور مجھے دوبارہ جیل نہیں جانا ہے۔‘‘ جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا وہ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں گی، تو دو بچوں کی ماں ستودہ نے جواب دیا، ’’بالکل، مجھے کام کرنے کی اجازت ہے اور میں اپنا کام جاری رکھوں گی۔‘‘

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ستودہ کی رہائی کا خیرمقدم کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ یہ حکومتی اقدام ایران میں تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کی طرف پہلا قدم ہو گا۔ برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ نے اس پیشرفت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ صدر روحانی کے دور میں وہاں انسانی حقوق کے حوالے سے مزید بہتری کی امید کرتے ہیں۔ یورپی پارلیمان کے اسپیکر مارٹن شُلز نے بھی اس خبر کو ’اہم اور مثبت اشارہ‘ قرار دیا ہے۔

ایرانی حکام کے مطابق ستودہ کے ساتھ جن دیگر سیاسی قیدیوں کو رہا کیا گیا، ان میں 2009ء کے حکومت مخالف مظاہروں میں شریک کئی کارکن بھی شامل ہیں۔ ان میں سے سابق نائب وزیر خارجہ محسن امین زادہ، اصلاحات پسند سیاستدان فیض اللہ عرب سرخی اور اصلاحات پسند صحافی امر آبادی قابل ذکر نام ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید