1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنگ کے دوران اعلیٰ امریکی حکام کا پہلا دورہ یوکرین

24 اپریل 2022

یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی توقع کر رہے ہیں کہ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اور وزیر دفاع لائیڈ آسٹن اتوار کو کییف کا دورہ کریں گے۔ دو ماہ قبل جنگ کے آغاز کے بعد سے یہ کسی اعلیٰ ترین امریکی وفد کا پہلا دورہ ہو گا۔

https://p.dw.com/p/4AME8
Bilderchronik des Krieges in der Ukraine | Präsident Wolodymyr Selenskyj in Kiew
تصویر: Ukrainian Presidency/abaca/picture alliance

امریکہ کے اعلیٰ سفارت کار اور دفاعی سربراہ اتوار کو یوکرینی دارالحکومت کییف کا  دورہ کریں گے۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اور وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کا یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے، جب یہ جنگ تیسرے ماہ میں داخل ہو چکی ہے اور اس کے نتیجے میں اب تک  ہزاروں افراد ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔

اس سے قبل یورپی رہنماؤں کا ایک وفد یوکرینی صدر ولودیمیر زیلنسکی سے ملنے اور ان کی حمایت پر زور دینے کے لیے کییف کا  دورہ کر چکا ہے۔ لیکن امریکہ، جو کہ یوکرین کی مالی اور ہتھیاروں کی امداد کرتا رہا ہے، نے اس سے پہلے کوئی اعلیٰ حکام یوکرین نہیں بھیجے۔ گزشتہ روز زیلنسکی نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ وہ امریکی وفد سے اہم بات چیت کی تیاری کر رہے ہیں۔ تاہم امریکی محکمہ خارجہ نے اس حساس دورے پر تبصرہ کرنے سے اجتناب کیا۔

یہ امریکی دورہ اس لیے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ اس وقت یوکرین پر روسی افواج کے حملوں نے شدت اختیار کر لی ہے اور جنوبی شہر اوڈیسا پر میزائل حملے  جاری ہیں، جن میں یوکرینی حکام کے مطابق ایک شیر خوار سمیت آٹھ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے زیلنسکی نے کہا، ''ہلاک ہونے والوں میں ایک تین ماہ کی بچی بھی تھی۔ وہ روس کے لیے کیا خطرہ بن سکتی تھی؟ ایسا لگتا ہے کہ بچوں کو مارنا روسی فیڈریشن کا ایک نیا قومی نظریہ ہے۔‘‘ 

کییف میں روسی فوج کوکہاں کہاں شکست ہوئی!

یوکرینی صدر نے روس پر ایک 'دہشت گرد ریاست‘ ہونے اور بندرگاہی شہر ماریوپول میں 'نازیوں کی طرح کا طریقہ واردات‘ اپنانے کا الزام بھی لگایا۔ یہ شہر کئی ہفتوں کی شدید بمباری سے تباہ ہو چکا ہے۔ ماریوپول سے شہریوں کے انخلا کی تازہ ترین کوششیں  گزشتہ روز ناکام ہو گئیں اور یوکرین کے فوجی ایک وسیع و عریض سٹیل مل کے سرنگوں میں چھپے ہوئے ہیں۔ زیلنسکی نے ہفتے کو اپنے روسی ہم منصب ولادیمیر پوٹن کے ساتھ جنگ  کے خاتمے کے لیے ملاقات کا ایک نیا پیغام جاری کیا، ''میرا خیال ہے کہ جس نے بھی یہ جنگ شروع کی ہے، وہ اسے ختم کرنے کا متحمل ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ وہ روسی رہنما سے ملنے سے ڈرتے نہیں ہیں۔ لیکن انہوں نے ایک بار پھر زور دیا کہ اگر ماریوپول میں یوکرینی فوجی مارے گئے تو کییف ماسکو کے ساتھ بات چیت کا ارادہ ترک کر دے گا۔

زیلنسکی نے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش کے منگل کو کییف سے پہلے ماسکو کے دورے کے فیصلے پر بھی تنقید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بات میں کوئی منطق نہیں ہے کیونکہ لاشیں یوکرین کی گلیوں میں پڑی ہیں ماسکو کی نہیں۔ امریکہ کے انسٹی ٹیوٹ فار دی اسٹڈی آف وار کے ایک تازہ ترین تجزیے کے مطابق روسی افواج اپنے فوجیوں کو دوبارہ تعینات کرنے اور ان کی تعداد میں اضافہ کرنے کی خواہاں ہیں اور اس عمل میں ان کی طرف سے کوئی سست روی ہوتی دیکھائی نہیں دیتی۔

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے، ''روسی افواج ممکنہ طور پر آنے والے دنوں میں زمینی جارحانہ کارروائیوں میں اضافہ کریں گی لیکن یہ بتانا قبل از وقت ہو گا کہ وہ کتنی تیزی سے ایسا کریں گی یا یہ حملے شدید بڑے ہوں گے۔‘‘ یوکرین  کی جانب سے ماریوپول سٹیل پلانٹ کے اندر اس کے سینکڑوں فوجی اور عام شہری محصور ہونے کا دعوی کیا جا رہا ہے اور ساتھ جنگ بندی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے تاکہ عام شہریوں کو زندہ بچایا جا سکے۔

لیکن کل ہی یوکرین کے صدارتی مشیر اولیکسی آریسٹووچ نے اپنے ایک بیان میں کہا  کہ روسی افواج نے اس فیکٹری پر دوبارہ فضائی حملے شروع کر دیے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا، ’’ہمارے محافظ انتہائی مشکل صورتحال سے قطع نظر ڈٹے ہوئے ہیں اور جوابی حملے بھی کر رہے ہیں۔‘‘

دوسری جانب روس کی وزارت دفاع نے کہا کہ انہوں نے اوڈیسا کے قریب غیر ملکی ہتھیاروں کا ذخیرہ کرنے والے ایک بڑے مقام  کو نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ اوڈیسا میں یوکرین کی فوج زہریلے کیمیائی مادوں کے استعمال سے اشتعال انگیزی کی تیاری کر رہی ہے، جس کا الزام روس پر لگایا جا سکتا ہے۔

تازہ ترین صورتحال میں کشیدگی اس وقت آئی، جب ایک سینئر روسی فوجی اہلکار نے کہا تھا کہ ان کا مقصد مشرقی ڈونباس کے علاقے اور جنوبی یوکرین پر مکمل کنٹرول حاصل کرنا ہے۔ روسی افواج، جو یوکرینی دارالحکومت پر قبضے کی کوششوں میں ناکامی کے بعد  کییف اور یوکرین کے شمال سے پیچھے ہٹ گئیں تھیں، پہلے ہی ڈونباس اور جنوب کے زیادہ تر حصے پر قابض ہیں۔

Ukraine und Nahost | Proteste gegen Putin in Syrien
تازہ ترین صورتحال میں کشیدگی اس وقت آئی، جب ایک سینئر روسی فوجی اہلکار نے کہا تھا کہ ان کا مقصد مشرقی ڈونباس کے علاقے اور جنوبی یوکرین پر مکمل کنٹرول حاصل کرنا ہے۔تصویر: OMAR HAJ KADOUR/AFP