1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنگ زدہ حالات سے گزرنے والے بچوں کا علاج گھوڑوں کی مدد سے

عاصم سليم11 اگست 2016

عموماً گھوڑوں کو سواری، کھيل يا اسی طرز کے ديگر مقاصد کے ليے استعمال کيا جاتا ہے ليکن آسٹريا ميں ايک امدادی تنظيم ان سے ايک نہايت منفرد کام لے رہی ہے۔ گھوڑوں کو تيار کيا گيا ہے کہ وہ مہاجرين کے کام آ سکيں۔ مگر وہ کيسے؟

https://p.dw.com/p/1Jfnx
تصویر: Colourbox

سانحوں کے شکار يا نفسياتی طور پر متاثرہ بچوں کی ذہنی کيفيت ميں بہتری اور انہيں معمول کی زندگی کی طرف واپس لانے کے ليے يورپی رياست آسٹريا ميں ايک  انوکھی پیش قدمی جاری ہے۔ ’انکائرہ‘ نامی امدادی تنظيم کے ایما پر شروع کردہ اس پیش قدمی  کے تحت ايسی کيفيت ميں مبتلا مہاجر بچوں کو ايک مخصوص ماحول ميں گھوڑوں کی سواری کرائی جاتی ہے، انہيں ہاتھ لگانے ديا جاتا ہے اور انہيں پھرانے اور چرانے کی اجازت دی جاتی ہے۔ تنظيم سے منسلک کلاؤڈيا بالڈيو کے بقول اس کے نتائج صاف ظاہر ہيں۔ انہوں نے بتايا، ’’اس کا تعلق حساس ہونے يا محسوس کرنے کی صلاحيت سے ہوتا ہے، آپ اتنے حساس ہوں کے گھوڑے کو ہاتھ لگا کر يا اسے پيار کر کے آپ سکون محسوس کر سکيں۔ يہ خوف کو دور کرنے اور پڑھنے لکھنے ميں ذہن کو قوت بخشنے کے ليے بھی موزوں ہے۔‘‘

کلاؤڈيا بالڈيو نے يہ منصوبہ سن 2009 ميں شروع کيا تھا۔ ويسے تو ’اکوئين اسسٹڈ تھراپی‘ يا گھوڑوں کے ساتھ مختلف ورزشوں اور ديگر سرگرمیوں کے ساتھ نفسياتی مسائل کا علاج سالہا سال سے جاری ہے تاہم مہاجرين کی اس طرز سے مدد آسٹريا ميں اپنی طرز کی نئی اور واحد سہولت ہے۔

انسبروک ميں جاری موسم گرما کے اس کورس ميں عراق، افغانستان اور ايران سے تعلق رکھنے والے پناہ گزين پس منظر کے دس بچے شامل ہيں، جن کی عمريں نو سے گيارہ برس کے درميان ہيں۔ يہ تمام بچے گزشتہ برس سياسی پناہ کے ليے اپنے اہل خانہ کے ہمراہ يورپ اور آسٹريا پہنچے تھے۔ گو کہ تھراپی کی مانگ کافی زيادہ ہے ليکن ’انکائرہ‘ محدود تعداد ميں ہی بچوں کو يہ سہولت مہيا کر سکتی ہے اور ضرورت پڑنے پر کچھ بچوں کو اضافی تھراپی بھی فراہم کی جاتی ہے۔ حسين، محمد، رضا، رامين، يوسف، بنين، زہرہ، سارينہ، مريم اور زينب نے اپنے اپنے آبائی ملکوں ميں جنگ و جدل کے جو ہولناک مناظر ديکھے اور پھر پناہ کی تلاش میں يورپ تک کے سفر ميں جو دشوارياں گزاريں، ان کی وجہ سے وہ نفسياتی طور پر متاثر ہوئے۔

’انکائرہ‘ سے منسلک کلاؤڈيا بالڈيو نے بتايا کہ کورس ميں شامل کسی بچے کی بہن لاپتہ ہے، تو ايک بچی کونے ميں بيٹھی روتی رہتی ہے کيوں کہ اس کی والدہ خودکشی کی کوشش کر چکی ہيں۔ انہوں نے کہا، ’’ان بچوں کے والدين ہميں بتاتے ہيں کہ انہوں نے جنگ و جدل کے درميان زخمی افراد اور لاشوں سے لے کر اپنے اہل خانہ کی گمشدگيوں تک کو سہا ہے۔ اس منصوبے کا مقصد يہی ہے کہ ان مناظر کے نفسياتی اثرات کو دور کيا جا سکے۔‘‘

جرمنی ميں نفسياتی ماہرين کے اندازوں کے مطابق مشرق وسطیٰ سے نئے آنے والے پناہ گزینوں کی تقريباً نصف تعداد نفسياسی مسائل کا شکار ہے۔ ان کے بقول يہی وجہ ہے کہ مہاجرين کو روٹی، مکان اور کپڑوں کے علاوہ طبی مدد بھی درکار ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید