جنوب مشرقی ايشيا کو بھی اسلامک اسٹيٹ سے خطرہ لاحق
30 ستمبر 2014خبر رساں ادارے اے ايف پی کی ملائيشيا کے دارالحکومت کوالا لمپور سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق ماہرين کو خدشہ ہے کہ شام اور عراق ميں جا کر وہاں شدت پسند تنظيم اسلامک اسٹيٹ کا حصہ بننے والے جنوب مشرقی ايشيائی ممالک کے اسلام پسند واپس آ کر اپنے آبائی ممالک ميں اس تنظيم کے نظريات پھيلانے کی کوشش کر سکتے ہيں اور وہاں حملوں کی کوشش کر سکتے ہيں۔
ايسے دہشت گرد عناصر کے اثر و رسوخ کی ايک مثال فلپائن ميں ملتی ہے، جہاں ايک جرمن شہری کو ايک مقامی اسلام پسند باغی گروہ ابو سياف نے يرغمال بنا رکھا ہے۔ گروہ نے مغوی کی رہائی کے ليے زر تاوان اور جرمنی کی طرف سے عراق و شام ميں اسلامک اسٹيٹ کے خلاف فضائی کارروائی کی حمايت ترک کرنے کا مطالبہ کيا ہے۔ ان شدت پسندوں نے کہا ہے کہ ان کے مطالبات پورے نہ کيے جانے پر وہ مغوی کا سر قلم کر ديں گے۔
يہ امر اہم ہے کہ عراق اور شام ميں اسلامک اسٹيٹ کی پيشقدمی کا موازنہ 1979ء تا 1989ء ميں سابقہ سويت يونين کی افغانستان پر چڑھائی سے کيا جا رہا ہے۔ اس وقت بھی کميونسٹوں کے خلاف لڑائی کے ليے دينا بھر سے اسلام پسندوں نے افغانستان کا رخ کيا تھا۔ افغان جنگ ميں جنوب مشرقی ايشيائی ملکوں کے جنگجوؤں نے بھی حصہ ليا تھا۔ بعد ازاں انہی جنگجوؤں نے جيسما اسلاميہ جيسے گروہوں کو پھلانے ميں مدد فراہم کی۔ يہ گروہ بالی ميں 2002ء ميں ہونے والے بم دھماکے ميں ملوث تھا، جس ميں دو سو سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اگرچہ حکام کی کارروائيوں کے نتيجے ميں ان دنوں جماعة الاسلاميہ جيسے گروہ کافی کمزور ہو چکے ہيں تاہم وہ اب بھی خطرہ تصور کيے جاتے ہيں۔
اسلامک اسٹيٹ کی طرف سے اپنے نظريات کے پھيلاؤ کے ليے سوشل ميڈيا کا استعمال ايک اور ايسی پيش رفت ہے، جس نے جنوب مشرقی ايشيائی ممالک کو کافی پريشان کر رکھا ہے۔ جنوب مشرقی ايشيائی خطے کے ممالک ميں سوشل ميڈيا کا استعمال عالمی سطح پر کافی زيادہ کيا جاتا ہے۔ جکارتہ ميں قائم ’انسٹيٹيوٹ فار پاليسی انالسس آف کانفلکٹ‘ (IPAC) نے گزشتہ ہفتے متنبہ کيا تھا کہ انڈونيشيا ميں غير ملکیوں کو ہدف بنايا جا سکتا ہے۔ اس ادارے کے مطابق شام ميں ملائيشين اور انڈونيشیائی جہادیوں نے اپنا گروپ بنا ليا ہے، جو کہ ايک پريشان کن پيش رفت ہے۔
ملائيشيائی حکام نے کہا ہے کہ وہ اسلامک اسٹيٹ سے لاحق خطرات سے نمٹنے کے ليے تيار ہيں۔ دوسری جانب ماہرين کا کہنا ہے کہ مسيحی اکثريت کا حامل ملک فلپائن ہدف بن سکتا ہے، جس کی وجہ انسداد دہشت گردی کے لیے اس کی قدرے کم قابليت ہے۔