جنوبی کوریا میں خودکشیاں کیوں بڑھ رہی ہیں؟
16 ستمبر 2020حکومتی اعداد و شمار کے مطابق خواتین اور نوجوانوں میں خودکشی کا رجحان مزید بڑھا اور سال کے پہلے چھ ماہ میں 1924 لوگوں نے اپنی زندگیاں ختم کردیں۔ یہ خود کشیاں پچھلے سال کے مقابلے میں سات فیصد سے زیادہ ہیں۔
وبا کے نفسیاتی اثرات
جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیئول کے مرکزی کلینک برائے ذہنی امراض کے بانی ڈاکٹر پارک چان مِین کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا سے لوگوں کو شدید ذہنی دباؤ کا سامنا ہے۔ ان کے مطابق ان مشکل حالات میں لوگ عدم تحفظ کا شکار ہیں، جس کی بڑی وجہ مستقبل کی بے یقینی ہے۔
ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وبا کے دوران لوگوں کو ملازمت چھن جانے کا خطرہ ہوتا ہے اور ان کی آمدنی بھی بتدریج کم ہوتی جا رہی ہے، جس کے باعث ان کی روزمرہ کی زندگی متاثر ہو رہی ہے۔
جنوبی کوریا میں باقی دنیا کی طرح وبا کے ابتدائی ماہ میں اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں بند رہے۔ مختلف کمپنیاں ہوم آفس کو ترجیح دیتی رہیں۔ کئی کاروباری اداروں میں مالی نقصانات دیکھے جاتے رہے۔
ساتھ ہی لوگوں کا آپس میں میل جول ختم ہوگیا۔ وبا کے دوران گھر سے باہر نکل کر خاندان والوں یا دوست احباب کے ساتھ چائے، کافی یا ڈرنکس پر ملاقاتیں کرنا بھی بہت کم ہو گیا تھا۔
خواتین اور نوجوان زیادہ متاثر
مقامی اخبار 'دی کوریا ہیرالڈ‘ کے مطابق وبا کے ابتدائی چھ ماہ کے دوران بیس سے تیس برس کی خواتین میں خود کشی کا رجحان پانچ گنا بڑھ چکا ہے۔ ان اعدادوشمار میں میں خود کشی کی ناکام کوشش کرنے والوں کی تعداد شامل نہیں ہے۔
اسی طرح لوگوں میں خود کو نقصان پہنچانےکے رویے میں بھی حیران کن اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ہسپتالوں اور کلینیکوں کے ایمرجنسی وارڈوں میں مریضوں کے داخلے میں ساٹھ فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔
سیئول ویمن یونیورسٹی کے پروفیسر ڈیوڈ ٹِزارڈ کا کہنا ہے کہ جنوبی کوریائی معاشرہ پہلے ہی ایک پریشر کُکر کی مانند ہے اور کورونا وبا نے اس میں مزید دباؤ پیدا کردیا ہے۔
تنظیم برائے اقتصادی تعاون اور ترقی کے مطابق اس کے پینتیس رکن ممالک میں جنوبی کوریا میں خودکشی کا رجحان سب سے زیادہ ہے، جس کی شرح پینتیس فیصد ہے۔
(ژولیان رُوال) ع ح، ش ج