جنوبی ایشیا میں بدعنوانی کا خاتمہ مشکل، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل
21 مئی 2014جرمن دارالحکومت برلن میں قائم تنظیم ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے اپنی یہ رپورٹ بدھ اکیس مئی کو نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو سے جاری کی ہے۔ اس رپورٹ میں جنوبی ایشیا کو ایک ایسا خطّہ قرار دیا گیا ہے، جہاں بدعنوانی کا راج ہے لیکن یہ کہ کرپشن کے انسداد کے لیے کوشاں بہت سی ایجنسیوں کو بدعنوانی کے واقعات کی چھان بین کے لیے یا تو حکومت کی اجازت کی ضرورت پڑتی ہے یا پھر اُنہیں اپنی تحقیقات کے دوران بڑے پیمانے پر سیاسی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے ڈائریکٹر برائے ایشیا اور بحرالکاہل سریراک پلیپاٹ نے رپورٹ کے اجراء کے موقع پر کہا:’’یہ خطّہ ایک شیطانی چکر میں پھنسا ہوا ہے، جہاں سیاسی شعبے پر احتساب سے ماورا ایسے مخصوص طبقات کی اجارہ داری قائم ہے، جن کے زور کو کوئی بھی نہیں توڑ پا رہا کیونکہ وہ خود پر انگلی اٹھانے والے عناصر کو منصوبہ بندی کے ساتھ خاموش کروا دیتے ہیں۔‘‘
اس رپورٹ کے اجراء سے چند ہی روز پہلے بھارت میں منعقدہ انتخابات میں رائے دہندگان نے اُس کانگریس پارٹی کے اقتدار کا خاتمہ کر دیا، جسے اپنے دَس سالہ دورِ حکمرانی میں بدعنوانی کے متعدد اسکینڈلز کا سامنا رہا۔
اس رپورٹ میں جنوبی ایشیا کے چھ ممالک بنگلہ دیش، بھارت، مالدیپ، نیپال، پاکستان اور سری لنکا میں بدعنوانی کے انسداد کے لیے جاری کوششوں کو جانچا گیا ہے۔ پلیپاٹ نے جنوبی ایشیائی رہنماؤں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:’’جب تک کوئی بدعنوانی کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں نہیں لائے گا، خطرہ یہ ہے کہ مستقبل میں ہونے و الی ترقی اور خوشحالی کا فائدہ صرف اور صرف طاقتور طبقات کو ہی ہو گا اور جنوبی ایشیا کے غربت کی چکی میں پسنے والے نصف ارب باشندے بدستور خالی ہاتھ رہیں گے۔‘‘
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بہت سے کیسز میں جنوبی ایشیا کے بدعنوانی کے خاتمے کے لیے کوشاں اداروں کو خود اُنہی کی حکومتیں کمزور بنا دیتی ہیں۔ مزید یہ کہ سرکاری عہدیدار اپنے سیاسی مخالفین سے انتقام لینے یا پھر اپنے طاقتور حامی عناصر کو بچانے کے لیے ان ایجنسیوں کو استعمال کرتے ہیں۔
نیپال میں، جہاں یہ رپورٹ جاری کی گئی ہے، خود انسدادِ بدعنوانی کے قومی ادارے کے سربراہ کو کئی سال تک بدعنوانی کے الزامات کا سامنا رہا ہے اور آج کل اُس کے خلاف کئی تحقیقات چل رہی ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیا کے جن ملکوں کو جانچا گیا ہے، اُن میں سوائے سری لنکا کے باقی تمام ملکوں میں ایسے قوانین موجود ہیں، جو عوام کے معلومات تک رسائی کے حق کی حفاظت کرتے ہیں تاہم شہری ان قوانین سے فائدہ نہیں اٹھا پاتے کیونکہ سرکاری اہلکار اُن کی طرف سے کی جانے والی شکایات اور درخواستوں پر کوئی عملی قدم اٹھانے سے ہچکچاتے ہیں۔
اس مطالعاتی جائزے کے مطابق جنوبی ایشیا میں بدعنوانی کا پردہ چاک کرنے والے عناصر کو سنگین خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ایسے کوئی قوانین نہیں ہیں، جو اُنہیں بچا سکتے ہوں۔ مزید یہ کہ جو سرکاری عہدیدار بدعنوانی کو منظر عام پر لاتے ہیں، اُنہیں یہ خطرہ رہتا ہے کہ یا تو اُن کا تبادلہ کر دیا جائے گا یا پھر اُنہیں اُن کے عہدے سے ہٹا دیا جائے گا۔
جنوبی ایشیا دنیا کے اُن خطّوں میں شمار ہوتا ہے، جہاں نامور سیاستدان بڑے پیمانے کی کرپشن میں ملوث ہوتے ہیں اور شہریوں کی بڑی تعداد کو دفاتر میں اپنے جائز کام کروانے کے لیے بھی بھاری رشوتیں دینا پڑتی ہیں۔