1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنوبی افریقہ میں عام انتخابات کے لیے ووٹنگ

ندیم گِل7 مئی 2014

جنوبی افریقہ میں نسلی عصبیت کے خاتمے کے بیس سال بعد پانچویں عام انتخابات کے لیے آج ووٹ ڈالے جا رہے ہیں۔ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق حکمران جماعت اے این سی کا پلڑا بھاری ہے۔

https://p.dw.com/p/1Bupp
تصویر: Reuters

جنوبی افریقہ میں اقلیتی سفید فام کمیونٹی کے اقتدار کے خاتمے کے ساتھ نسلی عصبیت بھی انجام کو جا پہنچی تھی۔ آج کے انتخابات میں ایسے ووٹر بھی شریک ہیں جنہیں وہ دَور یاد نہیں۔ تاہم رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق حکمران افریقین نیشنل کانگریس (اے این سی ) نسلی عصبیت پر فتح پانے والی طاقت کے طور پر اپنی ساکھ کا فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔

جنوبی افریقہ کے سنڈے ٹائمز میں گزشتہ دو ماہ کے دوران شائع ہونے والے رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق اے این سی کی حمایت تقریباﹰ 65 فیصد ہے۔ یہ شرح 2009ء کے انتخابات سے کچھ ہی کم ہے۔ اس وقت اس جماعت کو 65.9 فیصد سے فتح حاصل ہوئی تھی جس کے نتیجے میں صدر جیکب زوما اقتدار میں آئے۔

تجزیہ کاروں کا یہ مؤقف رہا ہے کہ اے این سی کا شاندار ماضی اب تاریخ کا حصہ بن گیا ہے اور ووٹروں کی توجہ اقتصادی بحران پر رہے گی جبکہ وہ زوما کے اقتدار کی پہلی مدت کے دوران سامنے والے والے اسکینڈلز پر بھی توجہ مرکوز کریں گے۔ تاہم خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اے این سی کی حمایت نے ایسی تمام قیاس آرائیوں کو غلط ثابت کر دیا ہے۔

Wahlen Südafrika 2014
جنوبی افریقہ کے صدر جیکب زوماتصویر: picture-alliance/dpa

جنوبی افریقہ کو 2009ء کے اقتصادی بحران سے نکلنے کے مشکل مرحلے کا سامنا رہا ہے۔ 1994ء میں نسلی عصبیت کے دَور کے خاتمے کے بعد اس کے لیے معاشی بدحالی کا یہ پہلا موقع تھا۔ اے این سی کی حکومت نے شرح نمو کو پٹری پر رکھنے اور 25 فیصد کی شرح بے روزگاری کو نیچے لانے کی کوششیں کیں جنہیں طاقتور یونینوں کی جانب سے نقصان پہنچا۔

جنوبی افریقہ میں بدعنوانی کے خلاف ایک ایجنسی نے زوما پر یہ الزام بھی لگایا تھا کہ انہوں نے کوازولو ناٹال صوبے کے علاقے نکانڈلا میں اپنے نجی گھر کی تزئین و آرائش کے لیے سکیورٹی اَپ گریڈ کے لیے رکھی گئی 23 ملین ڈالر کی سرکاری فنڈنگ کا ناجائز فائدہ اٹھایا۔

یہ بات سامنے آنے کے بعد سے زوما کی مقبولیت میں کمی واقع ہوئی ہے۔ تاہم رواں ہفتے انہوں نے ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں اس بات کو رّد کیا تھا کہ یہ صورتِ حال ان کی جماعت کے لیے نقصان دہ رہی۔

ان کا کہنا تھا: ’’میں نکانڈلا کے بارے میں فکرمند نہیں ہوں۔ عوام اس کے لیے پریشان نہیں ہیں۔ میرے خیال میں یہ فکر صرف آپ لوگوں کو لگی ہے، یعنی میڈیا اور اپوزیشن کو۔ ‘‘