1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنسی تشدد کے خلاف بل منظور، سزائے موت کے معاملے پر اختلافات

عبدالستار، اسلام آباد
11 مارچ 2020

بچوں کے خلاف جنسی تشدد کی روک تھام کے لیے ’زینب الرٹ بل‘ قومی اسمبلی سے بھی منظور کر لیا گیا ہے لیکن اس بل کے حمایتی اور مخالفین دونوں ہی اس سے مکمل طور پر مطمئن نہیں ہیں۔

https://p.dw.com/p/3ZDrp
Pakistan - Landesweite Kampaqne um Kinder zu schützen
تصویر: D. Baber

سن دو ہزار اٹھارہ میں پنجاب کے شہر قصور میں بچوں کے خلاف جنسی تشدد کے واقعات کے بعد عوامی سطح پر سخت قانون سازی کے مطالبے ہونے لگے تھے۔ ان مطالبات میں اس وقت شدت آئی، جب قصور میں ہی زینب انصاری نامی ایک نو سالہ لڑکی کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کیا گیا۔ بل کو زینب کے ہی نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ اس بل کو گزشتہ برس جون میں وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے پیش کیا تھا، جسے رواں برس جنوری میں قومی اسمبلی نے منظورکیا اور کچھ دنوں پہلے اسے سینیٹ نے بھی کچھ ترامیم کے ساتھ منظور کیا۔ آج قومی اسمبلی نے اس ترمیم شدہ بل کی منظوری دی، جس کے تحت گمشدہ بچوں کے لیے ایک ہیلپ لائن قائم کی جائے گی اور 'زینب الرٹ ریسپانس اینڈ ریکوری ایجنسی‘ بچے کی گمشدگی کے حوالے سے ایک الرٹ جاری کرے گی۔ یہ ایجنسی تمام وفاقی اور صوبائی محکموں سے روابط رکھے گی اور گمشدہ بچوں کے ڈیٹا کوترتیب دے گی۔ بچے کی گمشدگی کی صورت میں پولیس دو گھنٹے کے اندر اندر ایف آئی آر درج کرے گی، ایسا نہ کرنے پر متعلقہ افسر کو دو برس قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا دی جائے گی۔

زینب کے والد محمد امین انصاری نے اس بل پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس بل میں سزائے موت کا تذکرہ نہیں ہے جب کہ میرے خیال میں سزائے موت سے اس طرح کے جرائم کا سدباب کیا جا سکتا ہے۔ ابھی کل ہی میانوالی میں ایک لڑکے کے ساتھ زیادتی کے بعد اسے قتل کر دیا گیا ہے۔ تو ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے سزائے موت ضروری ہے۔‘‘

Protest in Karachi nach der Ermordung der siebenjährigen Zainab
تصویر: Faria Sahar

ان کا کہنا تھا اس کے علاوہ مدارس اور اسکولوں میں جنسی زیادتی کے واقعات بہت ہو رہے ہیں، ''مدارس کے اردگرد سی سی ٹی وی کمرے لگائے جانے چاہیے، مدارس کے اساتذہ کو جنسی تشدد کے حوالے سے خصوصی کورس کرایا جانا چاہیے، اساتذہ کی تعلیم کا کوئی پیمانہ ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ پولیس کو جدید خطوط پر تفتیش کرنی چاہیے۔ عدالتی نظام میں اصلاح ہونی چاہیے اور جن ملزمان کے ڈی این اے میچ کر جائیں، ان کے مقدمات کو آٹھ دنوں میں نمٹا دینا چاہیے۔‘‘

تاہم کچھ حلقوں نے زینب کے والد کے بر عکس اس بل کی شدید مخالفت کی۔ جماعت اسلامی کی مرکزی شوری کے رکن اور ایم این اے مولانا عبدل اکبر چترالی کا کہنا ہے کہ یہ بل بچوں کے لیے نہیں بلکہ این جی اوز کے لیے بنایا گیا ہے،''اس بل میں سزائے موت کا تذکرہ نہیں ہے۔ کوئی بھی بچوں کے ساتھ زیادتی کرے گا۔ انہیں قتل کرے گا اور پھر کچھ قید کاٹ کر باہر آ جائے گا یا اسے نام نہاد عمر قید ہو جائے گی۔ اس طرح تو ملزموں کے حوصلے بڑھیں گے۔‘‘

Protest in Karachi nach der Ermordung der siebenjährigen Zainab
تصویر: Faria Sahar

تاہم کچھ ناقدین کے خیال میں سزائے موت نہ دینا ایک درست فیصلہ ہے۔ معروف سماجی کارکن فرزانہ باری کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق کے کارکنان سزائے موت کے خلاف ہیں، ''لیکن ہمارے خیال میں بل میں عمر قید کی سزا تا حیات ہونی چاہیے۔ یعنی اگر کسی نے اس جرم کا ارتکاب کیا ہے تو وہ اس وقت تک جیل میں رہے، جب تک اس کی زندگی ہے۔ تو ہمارے خیال میں سزا کم رکھی گئی ہے لیکن پھر بھی ہم اس بل کا خیر مقدم کرتے ہیں۔‘‘

کئی ناقدین کا خیال ہے کہ ملک میں قوانین بن جاتے ہیں لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ فرزانہ باری کا کہنا ہے کہ علمدرآمد کے لیے حکومت کو بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی کرنا ہو گی، ''بچوں اور خواتین کے مقدمات خواتین افسران کے پاس ہونے چاہئیں، اس کے لیے پولیس میں خواتین افسران کو ڈی پی او اور سی پی او لیول پر بھرتی کیا جانا چاہیے۔ عدلیہ میں بھی ان کی تعداد کو بڑھایا جانا چاہیے۔ ملازمتوں میں خواتین کا جو دس فیصد کا کوٹا ہے، اس پر عمل درآمد ہونا چاہیے۔‘‘