1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنرل راحیل شریف کا دورہ کابل

شکور رحیم6 نومبر 2014

پاکستانی بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے کابل میں افغان صدر اشرف غنی اورافغان قومی سلامتی امور کے مشیر حنیف اتمارسے الگ الگ ملاقاتیں کی ہیں۔

https://p.dw.com/p/1DiNO
تصویر: picture-alliance/dpa

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر ہر لکھا کہ’’ کابل کے صدارتی محل میں جنرل راحیل شریف اور صدر اشرف غنی کے درمیان ملاقات ہوئی ہے۔‘‘ ترجمان کے مطابق اس دوران ہونے والی بات چیت مثبت رہی۔ اس سے قبل ترجمان نے گزشتہ روز ٹویٹ کیا تھا کہ جنرل راحیل شریف اپنے ایک روزہ دورے میں افغان چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ سمیت افغان وزیر دفاع اور افغان فوج کی اعلیٰ قیادت سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔

پاکستانی دفتر خارجہ کے مطابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا دورہ کابل پاکستان اور افغانستان کے درمیان مختلف سطح پر جاری ملاقاتوں کا حصہ ہے۔ جمعرات کے روز ہفتہ واری بریفنگ کے دوران دفتر خارجہ کی ترجمان تسلیم اسلم نے کہا کہ آرمی چیف کابل میں دفاعی تعاون اور سلامتی کے امور پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے افغانستان کو تجویز دی تھی کہ کس طرح سے دونوں مملک کے درمیان بین الاقوامی سرحد پرانتظامات کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ افغانستان نے اس تجویز پربات چیت کے لیے رضا مندی ظاہر کی ہے۔ افغان صدر اشرف غنی کے آئندہ ہفتے دورہ پاکستان کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں ترجمان نے کہا کہ وہ اس دورے کی تصدیق کرتی ہیں۔ تاہم انہوں نے کہا کہ اس دورے کی تاریخوں کا اعلان مناسب وقت آنے پر کیا جائے گا۔

Graben an der Grenze von Afghanistan nach Pakistan
تصویر: DW/A.G. Kakar

دفاعی امور کے تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ کا کہنا تھا کہ افغانستان میں نئی حکومت کے قیام کے بعد جنرل راحیل شریف کابل کا دورہ کرنے والے پہلے اہم پاکستانی عہدیدار ہیں۔ انہوں نے موجودہ صورتحال کے تناظر میں یہ ملاقات انتہائی اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ’’ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ دونوں وہاں کے مختلف علاقائی راہنما ہیں۔ یعنی ایک طرف شمالی اتحاد اور دوسری طرف پشتون ہیں یہ دونوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ تو میں سمھجتا ہوں کہ شاید افغانستان کی طرف سے پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر ہوں۔ یہ اور بات ہے کہ اس میں دوسرے عوامل بھی ہی جیسے بھارت اور امریکا ہیں او ان کے اپنے مفادات ہیں"۔

تاہم افغان امور کے تجزیہ کار رحیم اللہ یوسفزئی کا کہنا ہے کہ گزشتہ سالوں میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان بڑھتی ہوئی عدم اعتماد کی فضاء میں آرمی چیف کے دورے سے زیادہ توقعات وابستہ کرنا درست نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ’’ یہ توقع کرنا کہ اس ایک دورے میں یا کچہ ملاقاتوں میں سارے مسائل حل ہو جائیں گے میرے خیال میں یہ اسطرح ممکن نہیں ہے اور پہلے بھی کئی بار وعدے ہوئے گلے شکوے بھی ہوئے لیکن مسئلہ حل نہیں ہوا اور اصل مسئلہ وہی ہے کہ ان کا آپس میں اعتماد کا فقدان ہے۔ دونوں ممالک ایک دوسرے پر شک کرتے ہیں اور جب تک شک ختم نہیں ہو گا یہ اعتماد بحال نہیں ہو گا۔"

پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف ایک ایسے موقع پر کابل کا دورہ کر رہے ہیں جب امریکی محکمۂ دفاع(پینٹاگون) نے ایک حالیہ رپورٹ میں الزام لگایا ہے کہ پاکستان اب بھی بھارت اور افغانستان کے خلاف شدت پسند تنظیموں کو استعمال کر رہا ہے اور یہ بات پورے خطے کے استحكام کے لیے خطرناک ہے۔

جمعرات کو پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے امریکا اور افغانستان نے قبائلی علاقوں میں جاری پاکستانی فوجی کارروائی کے نتیجے میں سرحد پار کرنے والے دہشتگردوں کے خلاف کارروائی میں متوقع تعاون نہیں کیا۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ اس حقیقت کی موجودگی میں پینٹا گون کی اس طرح کی رپورٹ بے بنیاد اور پاکستان کے لیے ناقابل قبول ہے۔

پاکستان نے اس رپورٹ کے جاری ہونے کے بعد بدھ کی شام اسلام آباد میں امریکی سفیر رچرڈ اولسن کو دفتر خارجہ طلب کر کہ اپنا احتجاج بھی ریکارڈ کرایا تھا۔