جنرل اسمبلی کا اجلاس ، ایرانی صدر کی مذاکرات کی پیش کش
25 ستمبر 2013جنرل اسمبلی میں ایرانی صدر حسن روحانی نے اپنے پہلے خطاب میں متنازعہ جوہری پروگرام پر مذاکرات شروع کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تہران حکومت کے جوہری منصوبوں کو دنیا کے لیے خطرہ نہ سمجھا جائے۔ ’’جوہری یا بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے دیگر ہتھیاروں کی ایران کے سلامتی اور دفاع کے شعبوں میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ ہم مذہبی اور اخلاقی اعتبار سے یہ یقین دلاتے ہیں کہ ہمارا جوہری پروگرام پر امن مقاصد کے لیے ہے‘‘۔
حسن روحانی نے اپنے خطاب میں مغربی ممالک کی جانب سے عائد اقتصادی پابندیوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ حقیقت میں ان پابندیوں سے صرف عوام ہی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ ایران کی جانب سے مذاکرات شروع کرنے کےتناظر میں ابھی تک کوئی ٹھوس پیشکش نہیں کی گئی۔
امریکی صدر باراک اوباما نے بھی اس بارے میں اپنے شکوک کا اظہار کیا ہے۔ تاہم امریکی صدر ایران کے ساتھ جوہری تنازعے کے حل کے سلسلے میں سفارت کاری کو مزید ایک موقع دینا چاہتے ہیں۔’’ ہمیں خوشی ہے کہ ایرانی عوام نے صدر حسن روحانی کو اعتدال پسند پالیسیوں کو آگے بڑھانے کے لیے منتخب کیا ہے اور وہ مذاکرات کے لیے بھی راضی ہیں‘‘۔ تاہم امریکی صدر نے مزید کہا کہ ایران کو عالمی برادری پر ثابت کرنا ہو گا کہ وہ واقعی مذاکرات پر تیار ہے۔ صدر اوباما نے نئے ایرانی صدر حسن روحانی کے ’’اعتدال پسند‘‘ رویے کو سراہا۔
نیویارک میں موجود متعدد ممالک کی جانب سے بھی صدر روحانی کے خطاب کو سراہا گیا۔ ان میں جرمنی بھی شامل ہے۔ جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے نے ایرانی صدر کے خطاب کو مثبت قرار دیا ہے۔’’ ایرانی صدر کا بیان اطمینان بخش ضرور ہے لیکن عملی اقدامات اٹھانا بھی ضروری ہیں۔ اب اس پر عمل کرنے کا وقت ہے‘‘۔ ویسٹر ویلے نے مزید کہا کہ ایرانی صدر کا لہجہ بالکل بدلا ہوا تھا۔
ایرانی صدر کی جانب سے مذاکرات کے حوالے سے کیا جانے والا یہ ایک ایسا وعدہ ہے جو گزشتہ کئی سالوں کے دوران کرائی جانے والی یقین دہانیوں سے مختلف ہے۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور ان کے ایرانی ہم منصب جواد ظریف جمعرات کے روز بات چیت کے لیے مل رہے ہیں۔ تاہم اس صورتحال میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مغربی اقوام حسن روحانی کے وعدوں پر بھروسہ کریں گی؟
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران شام اور ایران کے موضوع کو مرکزی اہمیت حاصل رہے گی۔ دونوں متنازعہ ممالک اپنے اپنے مسائل کے سفارتی حل کی بات کر رہے ہیں۔ ابھی یہ غیر واضح ہے کہ تہران اور دمشق کی یہ کوششیں کس حد تک کامیاب رہتی ہیں۔