1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جمہوری تسلسل سے جداگانہ طرز انتخاب کے اثرات زائل ہوئے ہیں

شیراز راج
31 جولائی 2018

انسانی حقوق کے کارکن، مرکز برائے سماجی انصاف کے بانی ڈائریکٹر اور کالم نگار پیٹر جیکب نے ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ عام انتخابات 2018 نے مذہبی اقلیتوں کے سماجی امتزاج میں اضافہ کیا ہے، جو انتہائی خوش آئند ہے۔  

https://p.dw.com/p/32NKF
Peter Jacob  Menschenrechtsexperte, Forscher, freier Journalist.
تصویر: Privat

سوال: عام انتخابات کو مذہبی اقلیتوں کے حوالے سے آپ کیسا دیکھتے ہیں خصوصاً پہلی مرتبہ ایک ہندو امیدوار کا ایک عام نشست سے کامیاب ہونا کس رجحان کی جانب اشارہ کرتا ہے؟

جواب: حالیہ انتخابات میں سماجی امتزاج اور سیاسی اختلاط کا عمل پہلے سے زیادہ ہوا ہے۔ امیدوار اور پارٹی ورکر ان علاقوں میں گئے جہاں اکثریتی آبادی اقلیتوں پر مشتمل ہے۔ اسی طرح تین جماعتوں نے عام نشستوں پر ہندو شہریوں کو ٹکٹ دیا۔ اسی طرح ملک بھر سے ایک بڑی تعداد میں غیر مسلم افراد نے آزاد امیدواروں کے طور پر  الیکشن لڑا۔ اگرچہ وہ جیتے نہیں لیکن سیاسی عمل میں حصہ لینے کا عمل ہی بہت خوش آئند ہے۔ مخصوص نشستوں پر جو افراد نامزد کیے گئے ہیں، انکا معیار بہتر ہو سکتا ہے لیکن انکا سیاسی پارٹیوں میں اپنی جگہ بنانا مثبت نتائج مرتب کرے گا۔ لہذا میں یہ کہوں گا کہ جداگانہ طرز انتخاب کی وجہ سے جو سماجی تفریق اور سیاسی دوری پیدا ہوئی تھی وہ دور ہوتی نظر آتی ہے۔

 

Pakistan Lahore Baustelle Orangeline Metro Kirche
تصویر: DW/T. Shahzad

سوال: چند نشستوں کے سوا، مذہبی جماعتوں کی شکست پر آپ کی رائے؟ 
جواب: یہ ایک امید افزا بات ہے کہ پاکستان کے عوام مذہبی عناصر کو ہمیشہ مسترد کرتے ہیں۔ لیکن ان انتخابات میں بھی وہ کسی نہ کسی حد تک نمائندگی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ دیکھنا یہ چاہیے کہ کیا یہ سیاست کو پھر یرغمال بنا سکیں گے جو  لاکھوں ووٹ انہوں نے حاصل کیے ہیں وہ بھی ایک اہم اشاریہ ہے اور آئندہ کی پیش بندی اسی حوالے سے کی جانی چاہیے۔

سوال: اقلیتوں کے مطالبات کیا ہیں؟ 
جواب: اس حوالے سے حالیہ انتخابات کے دوران ایک اتفاق رائے قائم کرنے کی کوشش کی گئی اور مطالبات کو اس طرح سے ترتیب دیا گیا کہ جو نہ تو آئیڈیلسٹ ہوں، جیسا کہ آئین کے امتیازی حصوں کو فورا ختم کرنا، بلکہ ایسے مطالبات سامنے لائے جائیں جن پر پہلے سے کچھ  پیش رفت ہو چکی ہے۔ مثال کے طور پر، سابقہ چیف جسٹس پاکستان تصدق حسین جیلانی کے 2014 کے فیصلے میں تین احکامات پر اپنے مطالبات مرتب کئے۔ پہلا مطالبہ یہ ہے کہ نظام تعلیم اور نصاب تعلیم میں مذہبی امتیاز ختم کیا جائے یعنی تعلیم بلا تعصب اور بلا امتیاز۔ دوسرا یہ کہ ملازمتوں کے مخصوص کوٹے پر عمل درآمد کے لیے نگرانی کا کوئی نظام وضع کیا جانا چاہیے اور تیسرا مطالبہ یہ تھا کہ قومی کمیشن برائے اقلیتی حقوق کا قیام عمل میں لایا جائے اور اس کا حکم بھی عدالت نے دے رکھا ہے۔ بیوروکریسی ایک عبوری ادارہ کھڑا کر دیتی ہے جس کا کوئی اختیار اور اعتبار نہیں ہوتا۔

 

Protest von pakistanischen Christen nach Anschlägen auf Kirchen in Lahore
تصویر: Reuters/Mani Rana

سوال: نئی حکومت کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟
جواب: کسی بھی وقت تبدیلی کا امکان ختم نہیں ہوتا۔ پاکستان میں اسوقت بھی کئی شکوک و شبہات موجود ہیں لیکن سیاسی اور جمہوری عمل پر اعتماد کا اظہار ایک بہت بڑی بات ہے۔ نئی حکومت جو بھی پالیسیاں بنائے، یہ سوچ کر بنائے کہ یہاں کے لوگوں نے یہاں ہی رہنا ہے۔ کوشش یہ کہ جانی چاہیے کہ آئندہ کے لائحہ عمل پر زیادہ سے زیادہ اتفاق رائے قائم ہو۔ یہ موقع جو تیسری جمہوری حکومت کے آغاز کی صورت میں ملا ہے، اسے استعمال کرنا بہت ضروری ہے۔ جہاں تک مذہبی اقلیتوں کے مسائل کا تعلق ہے تو انکے کچھ مسائل خارجی ہیں اور کچھ داخلی ہیں۔ داخلی سطح پر میں یہ کہوں گا کہ مذہبی اقلیتوں میں ایک مدافعتی اور ردعمل کی نفسیات بہت بڑھ گئی ہے اور احساس محرومی غیر معمولی حد تک اور ضرورت سے زیادہ ہے۔ ہرمعاشرے میں اقلیتوں کے مسائل ہوتے ہیں لیکن ان کی وجہ سے اپنی جداگانہ شناخت کی خواہش یا مطالبہ کوئی صحت مند بات نہیں۔ حقوق کی جدوجہد میں سیاسی تحریکوں کےساتھ ہم آہنگی پیدا کرنی چاہیے۔ اس کے علاوہ سیاسی تحرک بھی بہت اہمیت رکھتا ہے اور جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ حالیہ انتخابات میں اقلیتوں کی جانب سے ایک غیر معمولی تحرک دیکھنے میں آیا ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ وہ اسی سیاسی ماحول میں رہیں گے جو پاکستان میں عمومی طور پر اپنی خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ موجود ہے لیکن شراکت کا عمل بہت امید افزا ہے۔

سوال: عمران خان کی پہلی تقریر میں مذہبی اقلیتوں کا حوالہ دیا گیا۔ آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟ 
جواب: یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ اس وقت ہماری سیاسی قیادت مجموعی طور پر اقلیتوں کے مسائل کو تسلیم کرتی ہے۔ آج سے بیس پچیس برس پہلے تو بیانیہ یہ تھا کہ اقلیتیں پاکستان کی مقدس امانت ہیں اور یہاں مکمل طور پر خوشحال ہیں۔ آج کم ازکم  یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ اقلیتوں کے مسائل ہیں۔ مجھے عمران خان اور پی ٹی آئی کی حکومت سے امید ہے کہ وہ یہ سمجھیں گے کہ صرف قانونی برابری (اور پاکستان میں تو ابھی قانونی برابری بھی موجود نہیں) کافی نہیں ہوتی بلکہ اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ آپ عملی اقدامات بھی کریں۔ مثال کے طور پر عمران خان نے جو میرٹ کا نعرہ لگایا ہے وہ کسی بھی طرح اقلیتوں کے لیے خصوصی اقدامات جیسا کہ کوٹہ وغیرہ سے متصادم نہیں۔ بہرحال ہم پی ٹی آئی کی حکومت کو خوش آمدید کہتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ مل جل کر مسائل کا حل نکالنے کی کوشش کی جائے گی۔

 

انتخابات اور پاکستانی اقلیتیں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں