1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہجرمنی

جرمن چانسلر کا سال نو پر خطاب، اتحاد پر زور

31 دسمبر 2022

جرمن چانسلر اولاف شولس نے کہا کہ یوکرین کے خلاف روس کی جنگ ’’ہمارے اور ہمارے ملک کے لیے ایک سخت امتحان ہے۔‘‘ انہوں نے توانائی کے بحران کے دوران عوامی کوششوں کی تعریف کی اور کہا کہ جرمنی کو بلیک میل نہیں کیا جا سکتا۔

https://p.dw.com/p/4LazY
SPERRFRIST BEACHTEN | Berlin | Aufzeichnung der Neujahrsansprache von Bundeskanzler Scholz
تصویر: Michael Kappeler/dpa/picture alliance

جرمن چانسلر اولاف شولس نے سال نو کے اپنے پیغام میں جرمن عوام سے کہا ہے کہ جس طرح انہوں نے 2022 کے دوران زبردست ’’ہم آہنگی اور طاقت  و اعتماد‘‘ کا مظاہرہ کیا، اسی طرح وہ نئے سال میں بھی اپنی ہمت و حوصلہ بر قرار رکھیں۔

کیا جرمن چانسلر کا دورہ بیجنگ چین پر یورپی یونین کے اختلافات کو بے نقاب کرتا ہے؟

جرمن چانسلر کا یہ خطاب نیے سال کے آغاز کے موقع پر آج ہفتے کی شب نشر کیا جائے گا، تاہم اس خطاب کی تحریری شکل ڈی ڈبلیو کو قبل از نشر فراہم کی گئی ہے۔

شولس نے کہا کہ 2022 ’’ایک مشکل برس‘‘ تھا،  تاہم ، جرمنی بھی ایک ’’مضبوط ملک‘‘ ہے۔

توانائی کا بحران جرمن چانسلر کو خلیج کے در تک لے آیا

انہوں نے کہا، ’’ایک ملک ایک روشن اور محفوظ مستقبل کے لیے تندہی اور محنت کے ساتھ کام کر رہا ہے۔‘‘ انہوں نے جرمن عوام سے کہا، ’’آنے والے سال میں بھی وہ ایک دوسرے کا ساتھ دینے کا سلسلہ جاری رکھیں۔‘‘

یوکرین کی عوام کے ساتھ ہمدردی

اولاف شولس کی تقریر کا مرکزی موضوع یوکرین کے خلاف روسی کی جنگ تھا۔ انہوں نے کہا کہ جنگ سے بہت سے لوگ پریشان ہیں۔ ’’ہمیں یوکرین کی عوام کے ساتھ ہمدردی ہے جو آج کے دن بھی روسی بموں اور میزائلوں سے محفوظ نہیں ہیں۔‘‘

تاہم انہوں نے کہا کہ سن ’’2022 کی تاریخ خالص جنگ، مصائب اور پریشانیوں کی نہیں ہے۔ یوکرین کے باشندے اپنے وطن کا دفاع بھی کر رہے ہیں۔ ہماری مدد کا بھی جزوی طور پر شکریہ اور ہم یوکرین کے لیے اپنی حمایت جاری رکھیں گے۔‘‘

امریکہ کے بعد جرمنی یوکرین کو عطیہ اور مدد فراہم کرنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے اور اس نے اربوں ڈالر کی عسکری، انسانی اور مالی امداد فراہم کی ہے۔ شولس نے مزید کہا کہ یورپی یونین اور نیٹو اب پہلے سے کہیں زیادہ متحد ہیں۔

فروری میں روس کے حملے کے بعد سے جرمنی نے دس لاکھ سے زیادہ یوکرینی مہاجرین کا خیر مقدم کیا ہے۔ شولس نے کہا، ’’ایسی ہنگامی صورتحال میں مدد کی پیشکش ہی تو بتاتی ہے کہ آخر ہم ہیں کون۔ یہ ہمارے ملک کو مزید انسان نواز ملک بناتا ہے۔‘‘

SPERRFRIST BEACHTEN | Berlin | Aufzeichnung der Neujahrsansprache von Bundeskanzler Scholz
اولاف شولس کی تقریر کا مرکزی موضوع یوکرین کے خلاف روسی کی جنگ تھا، جس میں انہوں نے کہا کہ جنگ سے بہت سے لوگ پریشان ہیںتصویر: Michael Kappeler/dpa/picture alliance

جرمنی نے ’بلیک میل ہونے‘ سے انکار کر دیا

جرمن رہنما نے کہا کہ جنگ ایک اہم ’’تاریخی موڑ‘‘ ہونے کے ساتھ ہی ’’ہمارے اور ہمارے ملک کے لیے ایک سخت امتحان‘‘ بھی ہے۔

انہوں نے کہا،  ’’ہم سب اپنی روزمرہ کی زندگیوں میں جنگ کے اثرات کو محسوس کر رہے ہیں، سپر مارکیٹ میں خریداری کرتے ہوئے، پیٹرول اسٹیشن پر، یا اپنے بجلی یا گیس کے بل ادا کرتے ہوئے۔‘‘ تاہم انہوں نے کہا کہ ملک نے ’’بلیک میل ہونے‘‘ سے انکار کر دیا اور اب ’’پہلے سے کہیں زیادہ متحد‘‘ ہے۔

شولس نے موسم سرما سے پہلے گیس ذخیرہ کرنے اور اس کی سپلائی کو متنوع بنانے کی اپنی حکومت کی کوششوں کا بھی ذکر کیا۔ انہوں نے مائع گیس کے ٹرمینلز کی تعمیر پر بات کی، جن میں سے پہلے ٹرمینل کا، انہوں نے دسمبر کے اوائل میں افتتاح کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کوششوں سے، ’’ہم اپنے ملک اور یورپ کو طویل مدت کے لیے روسی گیس سے آزاد کر رہے ہیں۔‘‘

توانائی کی بچت کے لیے عوام کا شکریہ

جرمن چانسلر نے توانائی کو کفایت شعاری سے استعمال کرنے پر جرمن عوام کا شکریہ ادا کیا اور ان پر زور دیا کہ وہ اپنی توانائی کی بچت کی مہم کو جاری رکھیں۔ انہوں نے ان مختلف پیکجوں کی طرف بھی اشارہ کیا جو ان کی حکومت نے ایک ساتھ رکھے ہیں، ’’تاکہ جرمنی میں شہری بڑھتی ہوئی قیمتوں کا مقابلہ کر سکیں۔‘‘

چانسلر نے کہا کہ ہم آہنگی جرمنی کا سب سے بڑا اثاثہ ہے۔ ’’آئیے اسی راستے پر چلیں، جو ہم نے گزشتہ برس طے کیا تھا۔ آئیے ہمت کے ساتھ ہم اس پر چلیں۔‘‘

ص ز / ع ت  (لوئس اولوفس)

اولاف شولس کا ایک سال