جرمن وزیر دفاع سُو گٹن برگ بھارت کے دورے پر
9 فروری 2011پانچ روز تک جاری رہنے والی اِس تجارتی نمائش میں، جو ایشیا بھر میں اپنی نوعیت کی اہم ترین نمائشوں میں شمار ہوتی ہے، 17جرمن صنعتی اور کاروباری ادارے اپنی اپنی مصنوعات کے ساتھ شرکت کر رہے ہیں۔ اِس دورے کے دوران سُو گٹن برگ کے مذاکرات میں جہاں سلامتی اور دفاع سے متعلقہ علاقائی اور بین الاقوامی امور زیرِ بحث آ رہے ہیں، وہیں اربوں یورو مالیت کے اسلحے کے اُس آرڈر کو بھی مرکزی اہمیت حاصل ہے، جسے یورپی ادارہ EADS حاصل کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔
بنگلور میں سُو گٹن برگ نے بھارتی چیف آف ایئر سٹاف پی وی نائیک اور دفاعی تحقیق و ترقی کی تنظیم DRDO کے ڈائریکٹر جنرل وی کے سرسوت کے ساتھ ساتھ اپنے بھارتی ہم منصب اے کے انٹونی کے ساتھ بھی ملاقات کی۔ ایک 40 رکنی اعلیٰ سطحی وفد بھی اِس دورے کے دوران جرمن وزیر دفاع کے ہمراہ ہے۔ اِس وفد کے ارکان بھارت کے ساتھ دو طرفہ تعاون بڑھانے کے مختلف امکانات کا جائزہ لے رہے ہیں۔
بھارتی حکومت دَس ارب ڈالر (7.3 ارب یورو) کے عوض 126 جنگی طیارے خریدنا چاہتی ہے۔ EADS اپنے یورو فائٹر بیچنا چاہتی ہے تاہم امریکی طیارہ ساز اداروں بوئنگ اور لوک ہِیڈ مارٹن سمیت پانچ دیگر ادارے بھی میدان میں ہیں۔
ابتدائی پروگرام کے مطابق اُنہیں مختصر دورے پر پاکستان بھی جانا تھا لیکن پھر یہ دورہ منسوخ کر دیا گیا۔ مشہور جرمن ہفت روزہ ’شپیگل‘ کے مطابق یہ منسوخی بھارت میں جرمنی کے سفیر تھوماس ماتوسیک کی مداخلت پر عمل میں آئی ہے۔ اِس کا جواز یہ بتایا گیا کہ اگر جرمن وزیر دفاع پہلے بھارت میں جرمن صنعت کے لیے دفاعی آرڈرز حاصل کرنے کی کوشش کریں گے اور بعد میں ہتھیاروں کی کسی قسم کی پیشکش کے بغیر بھارت کے حریف ملک پاکستان جائیں گے تو پاکستان ناراض ہو سکتا ہے۔ سفیر ماتوسیک نے البتہ جرمن جریدے کی اِس رپورٹ کی تردید کی ہے۔
سُو گٹن برگ بنگلور سے دارالحکومت نئی دہلی پہنچ چکے ہیں، جہاں وہ وزیر اعظم من موہن سنگھ کے ساتھ ملاقات کریں گے۔ سُو گٹن برگ، جن کا تعلق جرمن سیاسی جماعت کرسچن سوشل یونین (CSU) سے ہے، جمعرات کو جرمنی واپس روانہ ہو جائیں گے۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: عدنان اسحاق