جرمن وزیر دفاع افغانستان میں
3 جولائی 2012جرمن وزیر دفاع تھوماس دے میزیئر نے افغانستان پہنچنے پر قندوز میں تعینات جرمن دستوں سے ملاقات کی۔ اس موقع پر انہوں نے کہا ’’ گزشتہ برسوں کے مقابلے میں افغانستان کے شمالی علاقوں میں سلامتی کی صورتحال میں نمایاں بہتری آئی ہے‘‘۔ جرمنی میں حکمراں جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین سی ڈی یو سے تعلق رکھنے والے سیاستدان خصوصی طور پر شمالی افغانستان کے حالات کا جائزہ لینے کے لیے وہاں پہنچے ہیں۔ جرمن وزیر دفاع کے بقول 2010 ء کے مقابلے2011ء میں پرتشدد واقعات میں 40 فیصد کی کمی آئی تھی اور اس سال بھی یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔
آج کل جرمن افواج افغانستان سے انخلاء کی تیاریاں کر رہی ہے۔ جرمن دستوں کی تعداد جو پہلے 5350 تھی وہ اب کم ہو کر 4800 ہو گئی ہے۔ فیض آباد میں قائم جرمن چھاؤنی کو ختم کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔ فیض آباد چھاؤنی افغانستان میں جرمن افواج کی تین بڑی چھاؤنیوں میں سے ایک ہے۔ اسی طرح 2014ء کے اختتام تک جرمن افواج کی تقریباً 1700 گاڑیاں اور 6 ہزار کنٹینرز بھی افغانستان سے نکال لیے جائیں گے۔
اگلے ہفتے ٹوکیو میں افغانستان کے مستقبل کے موضوع پر ایک اہم اجلاس ہونے جا رہا ہے۔ اس تناظر میں جرمن وزیر دفاع کے اس دورے کو خاصی اہمیت دی جا رہی ہے۔ ٹوکیو اجلاس میں بین الاقوامی دستوں کے افغانستان سے انخلاء کے بعد کی صورتحال اور مالی تعاون کے بارے میں بات چیت ہو گی۔ جرمنی پہلے ہی اعلان کر چکا ہے کہ وہ افغانستان کی تعمیر نو اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے 400 ملین یورو سالانہ کی امداد دینے پر رضامند ہے۔
جرمن وزیر دفاع کے ہمراہ جرمن صوبے سیکسنی کے وزیر اعلیٰ Stanislaw Tillich اور آئی سیف کے شمالی افغانستان کے مقامی کمانڈر ایرک فیفر بھی افغانستان کے دورے پر ہیں۔ صوبہ سیکسنی کے وزیراعلی کو ساتھ لے جانے کا مقصد یہ ہے کہ اس سال افغانستان بھیجے جانے والے تقریباً ایک ہزار فوجی اہلکاروں کا تعلق اسی صوبے میں قائم مختلف چھاؤنیوں سے ہے۔
تھوماس دے میزیئر گزشتہ 16ماہ سے جرمن وزیر دفاع ہیں اور اس دوران افغانستان کا یہ ان کا ساتواں دورہ ہے۔ رواں برس مارچ میں انہوں نے اپنے دورے کے دوران کابل میں افغانستان کی سیاسی قیادت سے ملاقات کی تھی۔
ai/km (dpa)