جرمن وزیر داخلہ برلن میں ’فیس بُک‘ کے مرکزی دفتر میں
30 اگست 2016سیاست اور ’فیس بُک‘ جیسے سوشل میڈیا کے اداروں کے درمیان تعلق روایتی طور پر ایک مشکل تعلق ہوتا ہے۔ جرائم، دہشت گردی اور نفرت انگیز مواد کی تشہیر کے انسداد کا معاملہ ہو تو ریاستی ادارے بار بار فیس بُک جیسے اداروں کی جانب سے عدم تعاون کی شکایت کرتے ہیں۔
جرمن وزیر داخلہ تھامس ڈے میزیئر نے پیر اُنتیس اگست کو برلن میں فیس بُک کے مر کزی دفتر کا دورہ کیا۔ انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ اس سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹ کے ساتھ اشتراکِ عمل اچھا جا رہا ہے اور یہ کہ جرائم پر تحقیق اور تفتیش کے ادارے بی کے اے کو فیس بُک سے کوئی شکایات نہیں ہیں۔
جرائم پر تحقیق اور تفتیش کا ادارہ بی کے اے ہو یا پھر آئینی تحفظ کا وفاقی جرمن محکمہ بی ایف وی، یہ ریاستی ادارے عام چوری چکاری جیسے جرائم میں فیس بُک سے تعاون کی درخواست نہیں کرتے۔ ان کی دلچسپی ایسے جرائم میں ہوتی ہے، جن کا تعلق بچوں کی جنسی تصاویر، انتہا پسندانہ پراپیگنڈا مواد کی تشہیر اور دہشت گردانہ حملوں سے ہوتا ہے۔
لیکن اگر باہمی اشتراکِ عمل کی صورتِ حال واقعی اتنی اچھی ہے تو پھر حال ہی میں جرمن شہروں انسباخ اور وُرسبرگ میں دہشت گردانہ حملوں کے بعد ریاستی اداروں کو حملہ آوروں کے پروفائل ڈیٹا تک رسائی میں اتنی مشکلات کیوں پیش آئیں۔ اس حوالے سے جرمن وزیر داخلہ نے فیس بُک کے دفتر کے دورے کے موقع پر کہا کہ بہت سے کیسز میں استغاثہ کے اہلکار قطعی طور یر یہ جانتے ہی نہیں تھے کہ اُنہیں رابطہ کہاں اور کس سے کرنا ہے۔ ڈے میزیئر کے بقول یہی وہ چیز ہے، جسے مستقبل میں بہتر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
فیس بُک کی خاتون مینیجر ایوا ماریا کِرش زِیپر نے وزیر داخلہ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اُن کا ادارہ جرائم پر تحقیق کے صوبائی جرمن اداروں کے ساتھ بھی بھرپور تعاون کے لیے تیار ہے اور یہ کہ وہ بھی یہ نہیں چاہتیں کہ سوشل میڈیا پر نظر رکھنے کے لیے زیادہ سخت قوانین متعارف کروائے جائیں۔
اس دورے کے موقع پر جرمن وزیر داخلہ تھامس ڈے میزیئر نے یہ بھی کہا کہ فیس بُک جیسے اداروں کو خود بھی غیر قانونی مواد پر نظر رکھتے ہوئے اُسے ہٹا دینا چاہیے اور جیسے آج کل خود کار طریقے سے بچوں کی فحش تصاویر ’بلاک‘ کر دی جاتی ہیں، اسی طرح مستقبل میں انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے بھی خود کار طریقے متعارف کروائے جانے چاہییں۔