1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن فٹ بال میں جوئے بازی

16 جنوری 2022

جرمنی میں فٹ بال میچ دیکھنا ہو تو جوئے بازی کے اشتہارات کو نظر انداز کرنا ناممکن سی بات ہے۔ جوئے کی لت میں مبتلا ہونے والے کچھ لوگوں نے اس کی بھاری قیمت بھی چکائی ہے۔

https://p.dw.com/p/45XLm
Deutschland München | Bundesliga | Tor Robert Lewandowski
تصویر: Ulrich Hufnagel/Imago Images

کھیلوں اور جوئے کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ قدیم تہذیبوں میں کھیلوں کو ریاستی سطح پر فروغ  دینے کی وجہ لوگوں کے لیے تفریح کے سامان پیدا کرنا تھا تاہم اس سے حاصل ہونے والے ریونیوز یا آمدن میں جوا بھی ایک اہم جزو بنتا چلا گیا۔

کہا جاتا ہے کہ کھیلوں میں سب سے پہلے جوئے بازی کا منظم سلسلہ قدیم روم میں  گھوڑ ریس اور گلیڈیٹرز کے مقابلوں سے ہوا۔ گو اس سے قبل بھی کھیلوں پر جوئے کھیلے جاتے تھے لیکن اس عمل کو ریاستی سطح پر فروغ نہیں دیا جاتا تھا۔

لیکن آج کی بالخصوص جرمن نسل کے لیے تو کھیلوں پر جوا کوئی انوکھی بات نہیں۔ بالخصوص فٹ بال کے مقابلوں میں تو یہ ایک اہم جزو بن چکا ہے۔ جوئے بازی کی کمپنیاں، فٹ بال کے منتظم اداروں اور کلبوں نے بیٹنگ کو ایک معمول کی سرگرمی بنا دیا ہے۔

تباہی کی ایک جیتی جاگئی مثال

 جوئے کی لت کا شکار کئی افراد اس کی ایک بھاری قیمت چکا چکے ہیں۔ تھوماس میلشور اس کی ایک جیتی جاگتی مثال ہیں۔ تینتالیس سالہ میلشور نے پہلا جوا دس یورو کا کھیلا، جس سے وہ ایک یورو کا منافع حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ پھر کیا یہ سسلہ چل نکلا۔

تاہم میلشور کی جوئے کی زندگی کا اختتام جیل کی سزا پر ہوا۔ مجموعی طور پر آٹھ لاکھ یورو ہارنے والے میلشور پر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ انہوں نے اپنی اس عادت سے مجبور ہو کر فراڈ کیا اور پکڑے گئے۔

میلشور کو جنوری سن دو ہزار انیس میں سزا سنائی گئی تھی۔ اب ان کی چار ماہ کی سزا باقی رہ گئی ہے۔ ڈریسڈن کی اوپن جیل پیرول پر زندگی گزارنے والے میلشور نے  ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ اس جوے میں سب کچھ ہار چکے ہیں، اپنی جمع پونجی اور عزت و ساکھ سب کچھ۔ 

میلشور نے اب ایک مشاورتی فرم بنائی ہے، جو ایسے لوگوں کی معاونت کرتی ہے، جو جوئے کی وجہ سے انہی کی طرح متاثر ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی کے تجربات پر ایک کتاب بھی لکھی ہے،  میری زندگی کھیل نہیں۔

قوانین میں تبدیلی کا مطالبہ

میلشور لوگوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ جوا کس طرح انسان کو برباد کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نوکری تو گئی لیکن ساتھ ہی بیوی، بچے، دوست اور دیگر رشتہ سب نے ان کا ساتھ چھور دیا تھا اور وہ تنہا رہ گئے تھے لیکن اس عادت نے انہیں اس وقت تک بے حس و بے ہوش رکھا، جب تک وہ فراڈ کے جرم میں جیل نہ پہنچے۔

میلشور جیسے افراد کی کہانیوں کے منظر عام پر آنے کے بعد جرمنی میں جوئے کے قوانین میں اصلاحات کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔ جرمنی میں فٹ بال کلبوں کے مداح گروپوں کی ایسوسی ایشن انزرے کیروے نے رواں ہفتے ہی مطالبہ کیا ہے کہ بالخصوص فٹ بال کلبوں جوئے باز کمپنیوں سے نئی سپانسرشپس نہیں لینا چاہیے۔

اس ایسوسی ایشن نے مزید کہا کہ موجودہ سپانسرز سے حاصل والے منافع کا نصف    ایسے لوگوں کی بحالی پر لگایا جائے، جو اس عادے کی وجہ سے چب کچھ کھو چکے ہیں جبکہ جوئے بازی کی اشتہارات پر مکمل پابندی عائد کر دی جائے۔

Thomas Melchior
تھوماس میلشور نے پہلا جوا دس یورو کا کھیلا، جس سے وہ ایک یورو کا منافع حاصل کرنے میں کامیاب ہوئےتصویر: Privat

کووڈ کی عالمی وبا اور مالی مشکلات

کووڈ کی عالمی وبا کی وجہ سے روزہ مرہ کی زندگی ویسے بھی ورچوئل ہو چکی ہے۔ لیکن ساتھ ہی زیادہ تر کھیلوں کے مقابلے بھی خالی اسٹیڈیمز میں ہو رہے ہیں جبکہ کئی کلبوں کے سپانسرز بھی اس وبا کی تباہ کاریوں سے متاثر ہوئے ہیں اور ان کے پاس اتنی رقوم نہیں کہ وہ پہلے کی طرح کلبوں کی مالی اعانت کر سکیں۔

اس صورتحال میں جہاں ہر چیز آن لائن ہونے لگی ہے، وہاں دیگر آن لان بزنسز کی طرح جوئے کا کاروبار بھی چمک اٹھا ہے۔

مالی مشکلات کا شکار جرمن کلب بھی سپانسرز کے لیے جوئے کی کمپنیوں کی بڑی بڑی آفرز کے سامنے نرم پڑتے جا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر جوئے کا کاروبار غیرقانونی نہیں تو اس کی اشتہار بازی میں کیا برائی ہے، بس تمباکو کی تشہر نہ ہو۔

تاہم جوا بھی تمباکو جیسی ہی لت رکھتا ہے بلکہ کچھ کیسوں میں تو اس سے بھی زیادہ خطرناک، ناقدین کے مطابق اگر حکومتیں اور کھیلوں کے ادارے تمباکو ساز بڑے اداروں کے دباؤ کے باوجود تمباکو مصنوعات کی تشہپر پر پابندی عائد کر سکتے ہیں تو جوئے پر کیوں نہیں۔ اس کے لیے منافع کی لالچ سے ہٹ کر بس سیاسی اور سماجی عزم  درکار ہے۔

ملیشور کو خدشہ ہے کہ جس طرح بچے تمباکو کے اشتہارات سے متاثر ہو کر اس کا استعمال شروع کرتے تھے اب وہ جوئے کے اشتہارات سے متاثر ہو کر اس طرف جا سکتے ہیں۔ وہ اپنی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ انسان اپنے ارد گرد کے ماحول سے متاثر ہوتا ہے، اس لیے اسے بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ 

 

میٹ پیئرسن (ع ب ، ع ت)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں