1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہجرمنی

جرمن شہری پر روسی اسلحہ ساز کو اوزار فروخت کرنے کا الزام

24 اگست 2023

ایک جرمن بزنس مین کو اس شبہ میں گرفتار کیا گیا ہے کہ اس نے روس کو ایسے مشینی آلات برآمد کیے تھے جو اسنائپر رائفلیں بنانے کے لیے استعمال ہوتے تھے۔

https://p.dw.com/p/4VXrC
جرمنی کی وفاقی عدالت
تصویر: Arnulf Hettrich/IMAGO

جرمنی کے دفتر استغاثہ کے مطابق مشینی پُرزے بنانے والی ایک جرمن کمپنی کے سابق سربراہ پر روسی ہتھیاروں کی صنعت  کو سامان برآمد کرنے کا شبہ ہے۔ جرمن پرائیویسی قوانین کے تحت حراست میں لیے گئے مشتبہ شخص کی شناخت صرف اولی ایس کے نام سے بتائی گئی ہے۔

اولی ایس پر الزام ہے کہ انہوں نے سن 2015 میں ایک روسی اسلحہ ساز کمپنی کے ساتھ چھ مشینی اوزار فراہم کرنے کے تین معاہدوں پر دستخط کیے تھے۔  استغاثہ کا کہنا ہے کہ روسی کمپنی یہ پرزے اسنائپر رائفلز کی تیاری میں استعمال کرتی تھی۔

مقدمے کے بارے میں اہم معلومات

پراسیکیوٹر جنرل نے آج بروز جمعرات کہا ہے کہ یہ آلات سوئٹزرلینڈ اور لتھوانیا کے راستے تھرڈ پارٹی کمپنیوں کی مدد سے سپلائی کیے گئے۔

روس ہتھیاروں میں مغربی ٹیکنالوجی کیسے استعمال کرتا ہے؟

مذکورہ جرمن بزنس مین نے اپنی کاروباری سرگرمیوں میں قانون کی خلاف ورزی سے بچنے کے لیے مبینہ طور پر قائم کردہ دیگر کمپنیوں اور ایک اور روسی کمپنی کے ذریعے ڈیلیوری کی تھی۔ اولی ایس نے دو عشاریہ سترہ ملین ڈالر کے آرڈر وصول کیے تھے۔

پراسیکیوٹر جنرل کے بیان کے مطابق یہ کمپنی سن 2016 میں روسی اسلحہ ساز کمپنی کے ملازمین کو آلات استعمال کرنے کی تربیت دینے میں بھی ملوث تھی۔

زیر حراست جرمن شخص پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے سن 2015 کے آغاز میں روسی کمپنی سے "آزمائشی مقاصد کے لیے" چار اسنائپر رائفلیں درآمد کی تھیں۔

اس مشتبہ شخص کو رواں ماہ دس اگست کو فرانس میں یورپی اریسٹ وارنٹ کی بنیاد پر حراست میں لیا گیا تھا۔ بعد ازاں انہیں 22 اگست کو فرینکفرٹ ایئرپورٹ پر جرمن حکام کے حوالے کر دیا گیا۔

یورپی یونین نے سن 2014 میں روس کی جانب سے جزیرہ نما کریمیا  کے الحاق کے بعد ماسکو پر پابندیاں عائد کی تھیں، جس میں ہتھیاروں اور اس سے متعلق پرزوں کی برآمدات پر پابندی بھی شامل تھی۔ بعد ازاں سن 2022 کے اوائل میں روس کے یوکرین پر حملے کے نتیجے میں مزید سخت پابندیاں لگائی گئیں۔

ع آ / ا ا (روئٹرز، اے ایف پی، ای پی ڈی)

ایک سمندر میدان جنگ کیسے بن گیا؟