جرمن سیاسی جماعتیں ملک سے جوہری ہتھیار ہٹانے کی خواہاں
16 نومبر 2017روئٹرز کے مطابق دفاع اور خارجہ پالیسی پر بحث سے متعلق اس دستاویز میں اس حوالے سے امریکا کا نام نہیں لیا گیا جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ جرمنی کے ایک مغربی شہر بوئشیل میں واقع ایک فوجی اڈے پر اس کے 20 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ تاہم یہ غیر سرکاری اندازے ہیں۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل چوتھی مدت کے لیے حکومت سازی کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ تاہم اس بار اتحادی حکومت کے قیام کے لیے انہیں ماحول دوست گرین پارٹی اور کاروبار دوست فری ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ معاملات طے کرنا پڑ رہے ہیں۔ میرکل کی سابق اتحادی حکومت کی بڑی پارٹنر جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی SPD نے رواں برس ستمبر میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے بعد میرکل کی قدامت پسند جماعت سی ڈی یو کے ساتھ اتحاد نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
مغربی دفاعی اتحاد نیٹو میں شامل ملک جرمنی جوہری طاقت نہیں ہے۔ میرکل کی سربراہی میں ہی قائم حکومت نے 2011ء میں ملک میں قائم جوہری پاور پلانٹس کو 2022ء تک بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔ جرمن حکومت کی طرف سے یہ فیصلہ جاپان میں فوکوشیما جوہری پلانٹ کو پیش آنے والے حادثے کے بعد کیا گیا تھا۔
روئٹرز کے مطابق اتحادی حکومت کی تین متوقع جماعتوں نے اس دستاویز میں لکھا ہے، ’’نیٹو کے اندر، ہم چاہتے ہیں کہ جرمنی میں نصب باقی ماندہ جوہری ہتھیاروں کو بھی یہاں سے ہٹایا جائے اور ہم ان ہتھیاروں کو جدید بنانے کے پروگرام کا بھی خاتمہ چاہتے ہیں۔‘‘
صدارتی مدت مکمل ہونے سے قبل سابق امریکی صدر باراک اوباما نے جوہری ہتھیاروں، ان کے ڈلیوری سسٹم اور لیبارٹریوں کو جدید بنانے کے منصوبے کا اعلان کیا تھا۔ ان کے پس رو ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی کہا ہے کہ وہ ملک کی جوہری صلاحیت کو پھیلانے اور زیادہ مضبوط کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
روئٹرز کے مطابق میرکل کی جماعت سی ڈی یو، گرین پارٹی اور ایف ڈی پی متوقع طور پر ابتدائی بحث ومباحثہ آج جمعرات 16 نومبر کو مکمل کر لیں گی۔ جس کے بعد حکومت سازی کے لیے باقاعدہ مذاکرات کا آغاز ہو گا۔