1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن زبان و ثقافت اور کاروں کے کشمیری مداحین

گوہر گیلانی (نئی دہلی)
21 جنوری 2020

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی ایک یونیورسٹی میں غیر ملکی زبانوں کے شعبے میں جرمن زبان و ادب بھی پڑھایا جاتا ہے۔ اس علاقے میں ایسے افراد بہت ہیں جو جرمن گاڑیوں، خاص کر فولکس واگن اور مرسیڈیز کے بے حد شوقین ہیں۔

https://p.dw.com/p/3WU0R
German Residency in Sri Nagar Kaschmir
تصویر: DW/G. Gillani

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں تیس دہائیوں سے بھی زائد عرصے تک سری نگر میں قائم یونیورسٹی آف کشمیر میں طالب علموں کو جرمن زبان پڑھانے والے پروفیسر بشیر احمد المعروف ‘بشیر جرمن' ریٹائرمنٹ کے بعد آج ایک مطمئن اُستاد ہیں جنہیں اس بات پر فخر اور ندامت بھی ہے کہ انہوں نے اپنے کیریئر کے دوران سینکڑوں کشمیریوں کو جرمن زبان سکھائی ہے۔

خود پروفیسر بشیر نے سن 1976ء میں نئی دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں جرمن زبان سیکھی تھی اور پھر وطن واپسی پر انہوں نے کشمیر یونیورسٹی کے ‘ڈپارٹمنٹ آف فارن لینگویجز' میں تینتیس برس تک بیرونی زبان سیکھنے کے خواہاں کشمیری طالب علموں کو باقاعدگی سے جرمن زبان سکھائی۔ کشمیر یونیورسٹی کے بیرونی زبان کے شعبے میں جرمن کے علاوہ فرانسیسی اور روسی زبانیں بھی پڑھائی جاتی ہیں۔

 German Motors in Sri Nagar
تصویر: DW/G. Gillan

پروفیسر بشیر نے ڈوئچے ویلے سے خصوصی بات چیت میں کہا کہ‘‘میں نے جرمن زبان کی خدمت کی ہے اور جرمن زبان نے میری۔ میری کمائی یہی زبان ہے اور اسی نے مجھے روزگار فراہم کیا ہے۔''

‘‘آج میں ایک مطمئن اُستاد ہوں۔''

اُن کے مطابق کشمیر میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد جوش و خروش کے ساتھ جرمن زبان سیکھنے کے لئے یونیورسٹی کا رُخ کرتے رہے ہیں۔ ‘‘میرے شاگردوں میں ڈاکٹر، انجینئر، تاجر اور ماہر لسانیات شامل ہیں۔''

کشمیر میں پروفیسر بشیر احمد کو زیادہ تر لوگ ‘پروفیسر بشیر جرمن' کے نام سے ہی جانتے ہیں۔ وہ مختلف جرمن شہروں کا دورہ بھی کر چکے ہیں جن میں ہیمبرگ اور بون بھی شامل ہیں۔

‘‘میں سن 1993ء میں ہیمبرگ گیا اور سن 1996ء میں بون بھی آیا۔ مجھے اُس وقت کولون شہر میں واقع ڈوئچے ویلے کے دفتر جانے کا بھی موقع ملا، جہاں میرا انٹرویو لیا گیا تھا۔''

German Residency in Sri Nagar Kaschmir
تصویر: DW/G. Gillani

جب پروفیسر بشیر کشمیر یونیوسٹی میں جرمن زبان پڑھاتے تھے تو پندرہ تا بیس کے مختلف گروپوں میں طالب علم جرمن زبان کے ‘اے ون' اور ‘اے ٹو' ڈپلوما اور سرٹیفیکیٹ کورس کے لئے داخلہ لیتے تھے جبکہ انٹینسیو یا اسپیشل ‘بی ون' اور ‘بی ٹو' کورس کے لئے چالیس طالب علموں پر مشتمل ایک گروپ بنتا تھا۔ ان کے بقول کشمیر میں جرمن زبان کو بڑھاوا دینے اور اس کی ترویج کے سلسلے میں نئی دہلی میں واقع جرمن سفارت خانے اور ماکس میولر بھون، گوئٹے انسٹی ٹیوٹ، نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

یورپ کے بارے میں عام تاثر یہی ہے کہ جرمنی اپنی گاڑیوں اور فُٹ بال کے کھیل، فرانس اپنی شراب اور رومانوی حُسن اور برطانیہ اپنے منفرد قسم کے طنز و مزاح اور بین الثقافتی روایات کے لئے دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ تاہم بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ایسے افراد کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے جو نہ صرف جرمن زبان سیکھنے کے شوقین ہیں بلکہ جرمنی کی دانش اور اس کی قومی فُٹ بال ٹیم کے بھی مداح ہیں۔

بحران زدہ وادی کشمیر سے ہرسال موسم سرما میں کئی نوجوان لڑکے لڑکیاں بھارت کی مختلف ریاستوں کا رُخ صرف اس وجہ سے کرتے ہیں تاکہ جرمن زبان سیکھ سکیں۔ ان میں سے بعض کی خواہش یہ رہتی ہے کہ نامور جرمن یونیورسٹیوں میں داخلہ حاصل کرپائیں اور بعض ایسے بھی ہیں جو نیٹشے، ہیگل، گُنٹر گراس، کارل مارکس اور سگمنڈ فرائڈ کو اُن کی مادری زبان میں ہی پڑھنا چاہتے ہیں۔

شیخ مزمل ایسے ہی ایک کشمیری طالب علم ہیں جنہیں جرمن زبان، ثقافت، تہذیب و تمدن اور دانش سے بڑا لگاوٴ ہے۔ گزشتہ سال موسم سرما میں وہ سری نگر سے بھارتی دارالحکومت نئی دہلی جا پہنچے جہاں انہوں نےلینگیوج پینتھیون' ‘Language Pantheon نامی ایک ادارے میں اپنا داخلہ کرایا اور جرمن زبان کی ‘اے ون' اور ‘اے ٹو' لیول پاس کی۔ اُن کی کلاس میں ستر طالب علم تھے جن میں وہ اکیلے کشمیری تھے۔

Shaikh Muzamal
تصویر: DW/G. Gillani

نئی دہلی میں ڈوئچے ویلے اُردو سے گفتگو میں مزمل نے کہا کہ آجکل کے دور میں مختلف زبانوں کو سیکھنا بے حد اہم بن گیا ہے۔

‘‘دیکھیئے مجھے پالی گلاٹ بننا بے حد پسند ہے۔ ابھی حال ہی میں ایک جرمن طالب علم کو بھارت میں شہریت کے نئے قانون کے خلاف جاری ایک احتجاجی مہم کا حصہ بننے کے باعث واپس جرمنی لوٹنا پڑا تھا۔ وہ مایوسی سے نڈھال اور پریشان حال تھا۔ مجھ سے جرمن زبان میں بات کرنے سے اس کا حوصلہ بُلند ہوا۔''

انہوں نے مزید کہا کہ وہ کارکل مارکس، ہیگل اور نیٹشے کو انگریزی زبان میں پڑھ چکے ہیں۔ اب وہ جرمنی کی کسی معیاری یونیورسٹی میں اپنا داخلہ کرانا چاہتے ہیں تاکہ اس ملک کے بارے میں مزید معلومات حاصل کر سکیں اور اس کی تہذیب و ثقافت کا خود مشاہدہ کر پائیں۔

اُن کے چند کشیری ساتھی پہلے ہی برلن، میونخ اور ہیمبرگ جیسے جرمن شہروں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

اسی طرح احمد شہاب ایک اور کشمیری نوجوان طالب علم ہیں جو امریکہ میں ‘آرٹیفیشل انٹیلی جینس' یا مصنوعی ذہانت کی معیاری تعلیم حاصل کرنے کے خواہاں ہیں تاہم وہ جرمن قومی فُٹ بال لیگ بنڈ س لیگا کی ایک ٹیم بائرن میونخ کے مداحین میں بھی شامل ہیں۔

انہوں نے بھارتی ریاست پنجاب سے ڈوئچے ویلے سے بات چیت میں کہا کہ‘‘میں خود ایک پروفیشنل فُٹ بال کھلاڑی ہوں۔ مجھے جرمنی کے معیاری فُٹ بال کا کھیل بہت پسند ہے۔ اکثر تھوماس میولر اور اوزل کو کھیلتے ہوئے دیکھتا ہوں اور بائرن میونخ کا مداح ہوں۔''

شہاب کے چھوٹے بھائی محمد ثاقب کہتے ہیں کہ انہیں جرمن گول کیپر نوئر بے حد پسند ہیں۔ ‘‘نوئر ایک با کمال کھلاڑی ہیں۔ پھرتی اور ہنر سے دفاع کرتا ہے۔''

دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ وادی کشمیر میں ایسے کئی دکان دار اور ہوٹل مالکان بھی ہیں جو اپنی کاروباری سرگرمیوں کے لئے جرمن لفظوں کا استعمال کرتے ہیں۔ سری نگر کے مرکز میں واقع پولو وئیو اسٹریٹ، جسے بعض لوگ لندن کے پکا ڈلی سے تشبیہ دیتے ہیں، میں فرائے بُرگ نام کی ایک دکان ہے۔ چند کلومیٹر دور ہی مُنوار خیام نامی علاقے میں جرمن ریذیڈینسی، جرمن موٹرز اور ہیفلے کے نام نظر آتے ہیں۔

جرمن ریذیڈینسی کے مالک ریاض شیخ نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو میں کہا کہ ان کے بھائی لطیف احمد ‘لطیف جرمن' کے نام سے جانے پہچانے جاتے ہیں کیوں کہ وہ گاڑیوں کا ماہر ہے۔

''ریاض شیخ کہتے ہیں، ''تیس سال پہلے میرے بھائی لطیف احمد نے ایک خراب گاڑی کو پلک جھپکتے ہی اپنی مہارت سے ٹھیک کر دیا۔ جبھی سے ہم جرمن موٹرز کے نام سے یہ کارخانہ چلارہے ہیں، پہلے سری نگر کے زیرو برج کے نزدیک اور اب یہاں مُنوار خانیار میں۔‘‘

’جرمن زبان بھی سیکھی پھر بھی ڈی پورٹ کر دیا جاؤں گا‘