’جرمن حکومت مہاجرین کی حد مقرر کرے‘
30 اکتوبر 2015جرمن رياست باويريا کی سياسی جماعت کرسچن سوشل يونين (CSU) کی طرف سے مہاجرين کے بحران پر چانسلر انگيلا ميرکل کی حکمت عملی کو تسلسل کے ساتھ تنقيد کا نشانہ بنايا جاتا رہا ہے۔ پارٹی کے سربراہ ہورسٹ ذیہوفر نے اسی ہفتے برلن حکومت سے مطالبہ کيا تھا کہ آئندہ اتوار يعنی يکم نومبر تک، جرمنی پہنچنے والے پناہ گزينوں کی حد مقرر کر دی جائے۔ ذیہوفر نے کہا ہے کہ ان کا مطالبہ پورا نہ ہونے کی صورت ميں وہ ’ديگر آپشنز‘ پر غور کريں گے۔ کرسچن سوشل يونين (CSU) اتحادی حکومت کا حصہ ہے۔
يہ امر اہم ہے کہ اندازوں کے مطابق رواں سال کے اختتام تک جرمنی پہنچنے والے پناہ گزينوں کی تعداد آٹھ لاکھ سے ايک ملين کے درميان ہو سکتی ہے۔ چانسلر ميرکل کا موقف رہا ہے کہ پناہ گزينوں کی آمد کے سلسلے کو ايک دم روکنا ممکن نہيں۔ وہ اب بھی اپنے اسی موقف پر برقرار ہيں کہ ’جرمنی اس بحران سے نمٹ سکتا ہے۔‘
نائب چانسلر زيگمار گابریل نے اتحادی حکومت ميں شامل جماعتوں کے مابين اختلافات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جرمن اخبار اشپيگل سے بات چيت کرتے ہوئے کہا، ’’مہاجرين کی اتنی بڑی تعداد ميں آمد کے سبب ہمارے ملک کو درپيش چيلنج کو مد نظر رکھتے ہوئے يہ نکتہ نظر اور اس حوالے سے بيانات حکومتی اقدامات اٹھانے کی صلاحيت کو متاثر کر رہے ہيں۔‘‘ ان کے بقول اس قسم کی دو طرفہ ’بليک ميلنگ‘ غير ضروری اور غير ذمہ دارانہ ہے۔ نائب چانسلر کے مطابق ايسے بيانات لوگوں ميں الجھن اور اس حوالے سے خوف بڑھا رہے ہيں کہ شايد بحران سے نمٹا نہ جا سکے۔
يکم نومبر کے روز کرسچن سوشل يونين کے سربراہ ہورسٹ ذیہوفر اور چانسلر انگيلا ميرکل کے ملاقات طے ہے۔ برلن حکومت پہلے ہی اس حوالے سے قوانين کی منظوری دے چکی ہے کہ جرمنی ميں جو پناہ گزين سياسی پناہ کے مستحق قرار ديے جاتے ہيں، ان کے انضمام کے ليے آسانياں پيدا کی جائيں اور جن کی سياسی پناہ کی درخواستيں مسترد ہو جاتی ہيں، انہيں جلد از جلد ملک بدر کر ديا جائے۔ يورپ آنے والے اکثريتی مہاجرين کی اولين ترجيح جرمنی پہنچنا ہے۔ رواں سال جنوری تا ستمبر 577,000 پناہ گزين جرمنی پہنچ چکے ہيں اور يہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔