1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن اسرائیل تعلقات ایک معجزہ، ڈی ڈبلیو کا تبصرہ

الیگزانڈر کوڈا شیف / عدنان اسحاق12 مئی 2015

ہٹلر کی جانب سے یہودیوں کے قتل عام کے بعد تصور نہیں کیا جا سکتا تھا کہ جرمنی اور اسرائیل کے تعلقات کبھی استوار ہوں گے۔ ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار کوڈاشیف کے بقول معمول کے مطابق نہ ہونے کے باوجود اِن تعلقات میں ایک تسلسل ہے۔

https://p.dw.com/p/1FOaq
تصویر: Reuters/H. Hanschke

ڈی ڈبلیو کے الیگزانڈر کوڈا شیف کہتے ہیں کہ جرمنی اور اسرائیل کے مابین سفارتی تعلقات پچاس سال قبل قائم ہوئے تھے۔ اُن کے بقول یہ وہ موقع تھا جب ابھی دوسری عالمی جنگ اور اتحادیوں کی جانب سے ہٹلر حکومت کے خاتمے کو بیس برس بھی نہیں گزرے تھے۔ کوڈا شیف کے مطابق تب ابھی ہولوکاسٹ کے اُس واقعے کو بھی دو دہائیاں نہیں گزری تھیں، جس میں چھ ملین یورپی یہودیوں کو قتل کیا گیا تھا۔ اگرچہ 1950ء کے اوائل میں ہی جرمنی اور اسرائیل کے مابین تلافی کے سمجھوتے پر اتفاق ہو چکا تھا لیکن اُس کے دس سال بعد تک بھی اِس بارے میں تصور کرنا مشکل تھا کہ اتنے ہیبت ناک مظالم کے بعد بھی جرمنی اور اسرائیل کو اپنے تعلقات بحال کرنا چاہییں یا وہ کرنا چاہتے ہیں۔ اسرائیل میں اِس فیصلے کے خلاف شدید مظاہرے بھی ہوئے، جن کا انسانی اور سیاسی بنیادوں پر جواز بھی موجود ہے اور وہ قابلِ فہم بھی ہے۔

Deutschland Michael Müller empfängt Reuven Rivlin
اسرائیلی صدر آج کل جرمنی کے دورے پر ہیںتصویر: AFP/Getty Images/A. Berry

ہولوکاسٹ کے باوجود قربت اور اعتماد

آج پچاس سال بعد جرمنی اور اسرائیل کے سفارتی تعلقات کو کسی معجزے سے کم قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار کے مطابق آج یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے قریب بلکہ بہت ہی قریب کھڑے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں اسرائیلی نوجوان ہر سال جرمنی کا رخ کرتے ہیں اور گھومتے پھرتے ہیں۔ دو لاکھ سے زائد یہودیوں نے جرمن پاسپورٹ بھی حاصل کر رکھا ہے۔ اسرائیل میں امریکا کے بعد جرمنی کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ اِسی طرح 1960ء اور 1970ء کی دہائی میں اسرائیل میں زرعی شعبے میں کام کرنے والے جرمن شہری بھی بعد میں بھی بطور سیاح اسرائیل جاتے رہے۔ اِس دوران سب سے اہم بات یہ رہی کہ برلن اور تل ابیب تعاون بڑھانے اور اعتماد سازی کے لیے کام بھی کرتے رہے۔

الیگزانڈر کوڈا شیف مزید لکھتے ہیں کہ اگرچہ فلسطینی علاقوں پر قبضے کی اسرائیلی پالیسیوں اور وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کے فلسطینی ریاست کے قیام کی مخالفت میں دیے جانے والے بیانات پر تنازعہ پایا جاتا ہے، اس کے باوجود اسرائیل جرمنی پر سب سے زیادہ انحصار کر سکتا ہے۔ 2008ء میں اسرائیلی پارلیمان کنیسٹ سے خطاب کرتے ہوئے چانسلر انگیلا میرکل کہہ چکی ہیں کہ اسرائیلی تحفظ جرمنی کی ترجیحات میں شامل ہے۔ اکثر جرمنی یورپی یونین میں اسرائیل کا ساتھ دینے والا واحد ملک بھی ہوتا ہے۔ کوڈا شیف کے مطابق دشمنوں میں گھرے ہوئے کسی ملک کے لیے یہ ایک کڑوی حقیقت بھی ہے۔

بے قاعدگی میں باقاعدگی

یہ واقعی حیران کن ہے کہ اِن دونوں ممالک کے تعلقات معمول کے مطابق ہیں۔ ماضی میں رونما ہونے والے واقعات دونوں ممالک پر بوجھ بھی ہیں۔ اسرائیلی جرمنوں کو اہمیت دیتے ہیں لیکن مشرق وسطٰی تنازعے کی وجہ سے جرمنی میں صورتحال مختلف ہے۔ جرمنوں کی ایک بڑی تعداد فلسطینیوں سے ہمدردی رکھتی ہے۔ دوسری جانب ابھی گزشتہ دنوں کے دوران فرانس سے کافی تعداد میں یہودیوں نے یہ کہتے ہوئے اسرائیل نقل مکانی کی کہ وہ خود کو محفوظ نہیں سمجھتے۔ اس کے برعکس جرمنی سے یہودی شہری اسرائیل نقل مکانی نہیں کر رہے بلکہ جرمنی میں اسرائیل سے لوگ آ آ کر بس رہے ہیں۔ جرمنی میں گزشتہ بیس برسوں کے دوران یہودیوں کی تعداد دگنی ہوئی ہے۔ تبصرہ نگار کوڈاشیف کے بقول یہ دوسرا معجزہ ہے کہ یہودی دوبارہ جرمنی اور یورپ بھر میں آباد ہو رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہودیوں کے اسکولوں اور مذہبی مقامات کی نگرانی لازمی ہے کیونکہ کئی مرتبہ یہودیوں کی قبرستانوں کی بے حرمتی کی جا چکی ہے۔ بہرحال لاکھوں یہودیوں کے قتل عام اور دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے ستّر برس بعد بھی اِن دونوں ممالک کے باہمی روابط معجزاتی طور پر بہت اچھے ہیں اور اِس کے لیے صرف شکر گزار ہی ہوا جا سکتا تھا۔

Alexander Kudascheff DW Chefredakteur Kommentar Bild
کوڈاشیف کے بقول یہ دوسرا معجزہ ہے کہ یہودی دوبارہ جرمنی اور یورپ بھر میں آباد ہو رہے ہیںتصویر: DW/M. Müller