1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن اراکین پارلیمان کا وفد تائیوان میں

3 اکتوبر 2022

برلن اور تائی پے کے درمیان دوستانہ تعلقات کو اجاگر کرنے کے لیے جرمن اراکین پارلیمان کا ایک وفد تائیوان کے دورے پر ہے۔ یہ دورہ ایسے وقت ہو رہا ہے جب چین کے بعض اقدامات سے تائیوان کی جمہوریت کے لیے خطرات بڑھ گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4Hg7g
Bundestagsabgeordnete zu Besuch in Taiwan
تصویر: Außenministerium Taiwan/dpa/picture alliance

جرمنی کی مختلف سیاسی جماعتوں پر مشتمل چھ رکنی پارلیمانی وفد اتوار کے روز تائی پے پہنچ گیا۔ یہ وفد جمعرات تک تائیوان میں رہے گا۔

جرمن میڈیا اور خبر رساں ایجنسیوں کے مطابق جرمن وفد کے اراکین تائیوان کی صدر سائی انگ وین، نائب صدر لائی چنگ ٹے، وزیر خارجہ جوزیف وو اور ملکی پارلیمان کے اسپیکر یو سی کن سے ملاقات کریں گے۔

جرمن پارلیمانی وفد کے قائد اور اپوزیشن کرسچن ڈیموکریٹ پارٹی کے رکن کلاوس پیٹر ولش نے بتایا کہ اس دورے کا مقصد زمینی سطح پر تائیوان کی سکیورٹی کی صورت حال کا تجزیہ کرنا اور ملک کی معاشی اور اقتصادی ترقی سے متعلق مسائل کا جائزہ لینا ہے۔

جرمن وفاقی دفتر کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ  وفد کے دورے  کا مقصد "سیاسی، اقتصادی اور سماجی صورت حال، دو طرفہ تعلقات اور آبنائے تائیوان کے دونوں اطراف تعلقات میں پیش رفت سے متعلق مسائل کا جائزہ لینا" ہے۔

وفاقی دفتر کے مطابق "عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ کشیدگی کی وجہ سے پیدا ہونے والی سکیورٹی کی کشیدہ صورت حال ایک خاص کردار ادا کر رہی ہے۔"

یہ دورہ امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پیلوسی  کے تائیوان کے دورے کے دو ماہ بعد ہوا ہے۔ پیلوسی کے دورے پر بیجنگ نے سخت ردعمل کا اظہار کیا تھا اور بڑے پیمانے پر فوجی مشقیں شروع کر دی تھیں۔ بیجنگ اس جزیرے کو چین کا حصہ سمجھتا ہے اور اسے چین میں انضمام کے سلسلے میں اکثر دھمکیاں دیتا رہا ہے۔ 

تائیوان کا دورہ، چین نے امریکی پارلیمانی اسپیکر پر پابندیاں لگا دیں

امریکا اور یورپی یونین سمندر میں چین کی 'مشتبہ 'کارروائیوں سے فکرمند

ستمبر کے اوائل میں فرانسیسی اراکین پارلیمان کے ایک وفد نے بھی تائیوان کا دورہ کیا تھا۔

جرمن مندوبین تائیوان کیوں گئے ہیں؟

جرمنی کے تائیوان کے ساتھ کوئی سرکاری سفارتی تعلقات نہیں ہیں، لیکن برلن نے تائی پے کے ساتھ قریبی اقتصادی، ثقافتی اور علمی تعاون برقرار رکھا ہوا ہے۔

وفد میں شامل جرمنی کی مخلوط حکومت کی ایک حلیف گرین پارٹی کے رکن ٹل اسٹیفن نے دورے سے قبل ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اس دورے کا مقصد "تائیوان کے ساتھ اپنی دوستی ظاہر کرنا ہے۔"

انہوں نے کہا،"تائیوان ایک جمہوریت ہے اورہمارے لیے ان کے ساتھ رابطے میں رہنا اور دوسری جمہوریتوں کے ساتھ تعاون کرنا ضروری ہے۔"  انہوں نے مزید کہا کہ ایسے وقت میں جب کہ چین کی جانب سے جزیرے پر قبضے کے خطرات بڑھ رہے ہیں، تائیوان کا اس طرح کا دورہ نہ کرناایک''منفی اشارہ'' ہو گا۔

جرمن حکمراں جماعت کی حلیف گرین پارٹی کے رہنما کا کہنا تھا کہ یہ دورہ جرمنی کی "ون چائنا " پالیسی کو قبول اور اس حوالے سے چین کی حساسیت کا احترام کرتا ہے کیونکہ دورہ کرنے والے وفد میں حکومت کا کوئی رکن نہیں بلکہ اراکین پارلیمان شامل ہیں۔

ٹل اسٹیفن نے کہا کہ "میرے خیال میں چین کو اس تعاون میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے کیونکہ ہم اس دورے کے ذریعہ جرمنی اور تائیوان میں جمہوریتوں کو مضبوط کررہے ہیں۔"

جرمن جنگی طیارے ہند بحرالکاہل میں فوجی تربیتی مہم پر

چین، نئی ممکنہ جرمن وزیر خارجہ کی درآمدات روکنے کی دھمکی پر ناخوش

تاہم چین نے اس دورے کی نکتہ چینی کی ہے۔ خبر رساں ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق چین کے ایک حکومتی ترجمان نے جرمن وفد کو "ون چائنا اصول" پر عمل کرنے اور تائیوان میں آزادی حامی عناصر کے ساتھ رابطہ "فورا ًختم کر دینے"  پر زور دیا ہے۔

چینی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے،"چین اپنی قومی خود مختاری اور علاقائی سلامتی کی حفاظت کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے گا۔"

خیال رہے کہ تائیوان  ایشیا میں جرمنی کا پانچواں سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ دونوں ملکوں کے مابین سالانہ 20 ارب یورو سے زیادہ کی تجارت ہوتی ہے۔ حالانکہ تائیوان جرمنی کے مقابلے یورپی یونین کے دیگر ملکوں سے اتنی زیادہ تجارت نہیں کرتا ہے۔

امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن
امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹنتصویر: Andre Pain/AFP

تائیوان پر فوری حملے کا کوئی امکان نہیں، امریکہ

دریں اثنا امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے کہا ہے کہ امریکہ، چین کی طرف سے تائیوان پر فوری طور پر کوئی حملہ نہیں دیکھ رہا۔ 

امریکہ تائیوان کو بڑے پیمانے پر مسلح کرنا چاہتا ہے، رپورٹ

پینٹاگون کے سربراہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چین، تائیوان کے ارد گرد اپنی فوجی سرگرمیوں کا نیا معمول بنا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ خطے میں استحکام کے لیے وہ چینی فوج سے دوبارہ رابطوں کے لیے کام کر رہے ہیں۔
 

 ج ا/ ص ز (ڈی پی اے، اے ایف پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید