جرمنی چینی فوج کی امداد بند کرے، ایمنسٹی انٹرنیشنل کا مطالبہ
18 نومبر 2019جرمن اخبار ’بلڈ ام زونٹاگ‘ نے اتوار کے روز جرمن وزارت دفاع کی دستاویزات کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ وفاقی جرمن فوج کی جانب سے گیارہ چینی فوجیوں کو ’اعلیٰ تربیت‘ یا پھر ’فوجی انتظامی تربیت‘ دی جائے گی۔ اس کے علاوہ ایک چینی فوجی کو ’ذرائع ابلاغ اور تعلقات عامہ‘ کے شعبے میں بھی خصوصی تربیت دی جائےگی۔
سنکیانگ کے مسلمانوں پر ’رحم بالکل نہیں‘: چینی حکومتی کاغذات
جرمن وزارت دفاع کے ایک ترجمان کے مطابق چینی فوجی عموماﹰ جرمن آرمی کے تعلیمی پروگراموں میں شرکت کرتے ہیں۔ ان میں بین الاقوامی افسران کے لیے تربیتی پروگرام بھی شامل ہوتے ہیں، جن کا انعقاد مختلف یونیورسٹیوں اور فوجی اکیڈمیوں میں کیا جاتا ہے۔ وزارت دفاع کے ترجمان کے بقول، ’’ہمارا مقصد دیگر ممالک کے ساتھ اپنی جمہوری اقدار بانٹنا ہے۔‘‘
فوجی تعاون پر تنقید
ماحول پسندوں کی جرمن سیاسی جماعت گرین پارٹی کے سیاستدانوں اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکنان نے بھی برلن حکومت سے چینی فوجیوں کی تربیت روک دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ گرین پارٹی کے پارلیمانی حزب کے انسانی حقوق اور سکیورٹی امور کے ترجمان ٹوبیاس لِنڈنر اور مارگریٹے باؤزے کے مطابق چین میں انسانی حقوق کی صورت حال انتہائی ناقص ہے۔ ان کے بقول، ’’چینی صوبے سنکیانگ میں لاکھوں شہریوں کو مکمل نگرانی اور جبر کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، جو اگر نسل کشی نہیں تو انسانیت کے خلاف مبینہ جرائم ضرور ہیں۔‘‘
ایمنسٹی انٹرنیشنل سے منسلک اسلحے اور انسانی حقوق سے متعلقہ امور کے ماہر ماتھیاس جان نے اخبار ’بلڈ ام زونٹاگ‘ سے گفتگو میں کہا، ’’جرمنی کے لیے چینی فوجیوں کی تربیت میں مدد کے تسلسل کا کوئی معقول جواز باقی نہیں رہا۔‘‘
ہانگ کانگ میں يونيورسٹی کیمپس میدان جنگ بن گیا
ہانگ کانگ کے جمہوریت نواز کارکن جوشُوآ وونگ نے بھی برلن حکومت کے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہانگ کانگ میں موجودہ ہنگامی صورت حال دیکھتے ہوئے جرمن وزارت دفاع کو کافی عرصہ پہلے ہی بیجنگ کے ساتھ اپنا عسکری تعاون اور تربیتی پروگرام روک دینا چاہیے تھے۔
ع آ / م م (dpa, KNA)