جرمنی میں ہپی فیسٹول
28 جولائی 2010ساٹھ اور ستر کی دہائی میں ہپی اسٹائل بہت مشہور تھا۔ بڑے بڑے کالرز کی شرٹس، بیل بوٹم پتلونیں اور لمبے لمبے بال، اُس دور کی خاص نشانی تھے۔ صرف یہی نہیں ُاس وقت ہپیز ایک احتجاجی تحریک کا نام بھی تھا۔ آج بھی اس تحریک میں شامل افراد پرانے وقت کو یاد کرتے ہیں۔
نیلا آسمان اور چلچلاتی ہوئی دھوپ، شدید گرمی، ہپیوں کے لمبے لمبے بالوں کو ہلاتے ہوئے ہوا کے جھونکے، گھاس پرننگے پیر چلتے ہوئے بہت سے افراد اورپھیلی ہوئی چرس کی بو، یہ ہے منظر جرمنی میں ہپی فیسٹول کا۔
سینکٹروں کی تعداد میں موبائل وین اور خیموں کے ساتھ یہ لوگ یہاں کا رخ کرتے ہیں۔ یہ فیسٹول نئے اور پرانے ہپیز کو ایک دوسرے سے ملانے کا ایک بہانا بھی ہے اور منتظمین کی یہی خواہش بھی ہے کہ ان دو نسلوں کو ایک دوسرے کے قریب لایا جائے،’’یہاں صرف پیار اور امن کی بات کی جاتی ہے۔ اس کے پیچھے کوئی بڑا فلسفہ بھی نہیں ہے۔ صرف تفریح، سکون اور دنیا بھر کے لئے انڈوں سے بنے ہوئے کیکس۔‘‘
بڑی بڑی مونچھوں والا یورگن،خود بنایا ہوا سگار ہاتھ میں لئے،اپنے آپ کو پرانا یا اولڈ ہپی کہتا ہے۔ جب وہ سولہ سال کا تھا تواس نےسڑکوں پر زیوارت فروخت کرنا شروع کئے تھے۔ وہ کہتا ہےکہ وہ انہیں خود بناتا تھا اور مختلف شہروں میں انہیں بیچا کرتا تھا۔ ایک طویل عرصے تک وہ سپین میں بھی یہی کام کرتا رہا۔ وہ کہتا ہے کہ دنیا اور زندگی کے بارے میں اس کے جو خیالات ہیں، ان میں کوئی زبردستی نہیں ہے،’’ لوگوں کوخود ہی اس کی تلاش کرنی ہے اور اس بارے میں فیصلہ بھی کرنا ہے۔ اگر وہ مجھ سے متاثر ہوں تو کہتے ہیں کہ اس بوڑھے شخص کے خیالات ہیں توکچھ عجیب سے لیکن یہ ہے ایک نفیس انسان ۔‘‘
ساٹھ اور ستر کی دہائی کے بہت سے ہپیوں نے اپنا فلسفہ زندگی اپنے بچوں کو منتقل نہیں کیا۔ اسی وجہ سے اِسی کی دہائی میں یہ تحریک کافی کمزور پڑ گئی تھی اور ہپیز کی زندگیوں میں بھی کچھ ٹھراؤ سا آ گیا تھا۔ یورگن کہتا ہے کہ لیکن اب صورتحال کچھ مختلف ہے اور نوجوانوں کی دلچسپی ایک مرتبہ پھر اس جانب بڑھ گئی ہے،’’ یہ کہا جاسکتا ہے کہ نوجوان کسی مقصد کی تلاش میں ہوتا ہے اور کسی نہ کسی کے ساتھ کام بھی کرنا چاہتا ہے۔ آج کل ہزاروں گروپ ہیں، جو مختلف فلسفیانہ نظریات کی پیروی کر رہے ہیں۔ پرانے وقت میں یہ صورتحال نہیں تھی۔ ہمارے وقت میں یا تو ہپی بن سکتے تھے یا پھر روکر۔‘‘
بہت سے نوجوانوں کے لئے اصل ہپی دور گزر چکا ہے اور اب اُس کا صرف خیال ہی کیا جاسکتا ہے۔ فیسٹول میں شریک لیا نامی ایک خاتون کہتی ہے کہ اِس دور کے نوجوان کسی دوسری طرح کے ہپی ہیں،’’ میں یہ کہوں کی کہ میرے لئے یہ سب کچھ فارغ وقت کا ایک مشغلہ ہے۔ میں ہپیوں کی طرح ہی ملبوسات پہنتی ہوں لیکن جہاں تک زندگی گزارانے کی بات ہے تو میرے خیال میں موجودہ دور میں اُس طرح نہیں رہا جا سکتا ، جیسا کہ اس وقت زندگی گزاری جا تی تھی۔‘‘
لیا مزید کہتی ہے کہ بے شک ابھی بھی بہت سے نوجوان پرانے وقت کے ہپیوں کو بہت پسند کرتے ہیں اور کچھ کے لئے تو یہ تحریک ابھی بھی ایک مثال سے کم نہیں ہے لیکن اب سوچ میں بہت تبدیلی آ چکی ہے۔ آجکل کے نوجوان دنیا کوکسی اور طرح سے دیکھتے ہیں،’’ میرے خیال میں ہم بہت زیادہ دھیمے ہوگئے ہیں۔ موجودہ نسل کے آئیڈل بھی پہلے کی طرح نہیں رہے، بدقسمتی سے ان میں بھی تبدیلی آ چکی ہے۔ ہمیں ان کی اشد ضرورت ہے۔‘‘
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ جرمنی میں ہپی تحریک ابھی ماند نہیں پڑی ہے اور یہ ایک مختلف انداز میں پروان چڑھ رہی ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ہپی کی پرانی اور نئی نسلیں تمام اختلافات کے باوجود اب بھی ایک دوسرے سے ملتی رہتی ہیں، جیسا کہ ہر سال اس ہپی فیسٹول میں۔
رپورٹ: عدنان اسحاق
ادارت: عاطف بلوچ