1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں کسانوں کا مظاہرہ: ٹریفک متاثر ہونے کا خدشہ

8 جنوری 2024

جرمن کسانوں کا مطالبہ ہے کہ حکومت زراعت کو دی جانے والی رعایات میں کمی کرنے کا اپنا منصوبہ واپس لے۔ پیر کے روز کسانوں کے مظاہروں کے سبب ملک کے کچھ حصوں میں ٹریفک میں بڑے پیمانے پر خلل کا خدشہ ہے۔

https://p.dw.com/p/4axbC
برلن میں کسانوں کا احتجاج
جمعرات کے روز حکومت نے اعلان کیا کہ وہ سبسڈی منصوبے میں بعض کٹوتیوں کو واپس لینے کے لیے تیار ہے، تاہم جرمن کسانوں کی ایسوسی ایشن نے اسے ناکافی بتا کر مسترد کر دیا تھاتصویر: Christian Mann/REUTERS

جرمنی میں بہت سے کسان سبسڈی میں کمی کے حکومتی منصوبوں کے خلاف مظاہرہ کرنے کے لیے اتوار کو دارالحکومت برلن پہنچے۔ مقامی اخبار برلنر زیتونگ کے مطابق کسانوں کا قافلہ مقامی وقت کے مطابق شام کے ساڑھے پانچ بجے برلن میں داخل ہوا۔

جرمنی کے شمال مغربی علاقے سیلاب کی زد میں، مدد کے لیے فوجی تعینات

برلن کے معروف برانڈنبرگ گیٹ پر پہنچنے کے بعد کسانوں نے رات کے تقریباً 11 بجے کینڈل لائٹ مارچ کیا۔

’کچھ نہیں ہوتا‘ یا ’کچھ بھی ہو سکتا ہے‘

کسان احتجاج کیوں کر رہے ہیں؟

کسان جرمن چانسلر اولاف شولس کی مخلوط حکومت کی طرف سے زرعی سبسڈی کی معطلی کے منصوبے کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں۔ شولس کی حکومت میں ان کی جماعت سوشل ڈیموکریٹس کے ساتھ ہی گرینز اور نیو لبرل فری ڈیموکریٹس کے اتحاد پر مشتمل ہے۔

طاقتور کمپنی کے خلاف ایک جرمن کسان کی قانونی جنگ

 جمعرات کے روز ہی حکومت نے اعلان کیا کہ وہ سبسڈی منصوبے میں بعض کٹوتیوں کو واپس لینے کے لیے تیار ہے، تاہم جرمن کسانوں کی ایسوسی ایشن (ڈی بی وی)  نے اسے ناکافی بتا کر مسترد کر دیا تھا۔

جرمن کمپنی کی مشاورت سے :پاکستان میں جدید کاشتکاری

جمعے کے روز جرمن وزارت داخلہ کے ترجمان نے خبردار کیا کہ حکومت مخالف عناصر اور انتہائی دائیں بازو کے عناصر، ان مظاہروں کو، اپنے مفادات کے لیے آلہ کار بنانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔

جرمنی کے نئے وزیر زراعت کا سستے گوشت کے خلاف جنگ کا اعلان

جرمن اخبار ڈیر اسپیگل کے مطابق جرمن وزیر خزانہ کرسچن لِنڈنر نے کسانوں پر زور دیا کہ وہ ''واپس چلے جائیں '' اور مزید کہا کہ زراعت ایک ''انتہائی سبسڈی والا شعبہ'' ہے۔

برلن میں کسانوں کا احتجاج
احتجاجی مظاہروں سے پہلے ہی مرکزی برلن اور مغربی مضافاتی علاقوں کو جوڑنے والے ایک بڑے راستے جونی کو ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیاتصویر: Michael Kuenne/PRESSCOV/ZUMA Press Wire/picture alliance

حزب اختلاف کے قدامت پسند اتحاد سی ڈی یو/ سی ایس یو، انتہائی دائیں بازو کی جماعت 'الٹرنیٹو فار جرمنی' (اے ایف ڈی) اور دائیں بازو کے پاپولسٹ فری ووٹرز نے کسانوں کے اس احتجاج کی حمایت کا اظہار کیا ہے۔

ملک کے مختلف حصوں میں ٹریفک میں خلل کا خدشہ

احتجاجی مظاہروں سے پہلے ہی مرکزی برلن اور مغربی مضافاتی علاقوں کو جوڑنے والے ایک بڑے راستے جونی کو ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا۔ مظاہروں کی وجہ سے پیر کے روز ٹرانسپورٹ میں بڑی رکاوٹیں پڑنے کی توقع ہے۔

برلینر زیتونگ کے مطابق مشرقی ریاست برانڈنبرگ کی وزارت ٹرانسپورٹ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس کی وجہ سے عام سامان کی ترسیل میں رکاوٹیں پیدا ہو سکتی ہیں۔ ٹریفک خلل کے امکان کو کم کرنے کے لیے ریاست نے سات جنوری سے ہی ٹرکوں کی آمد و رفت پر پابندی کو مستثنیٰ قرار دیا، جو عموماً  اتوار اور عوامی تعطیلات کے موقع پر نافذ رہتی ہے۔

شمالی ریاست ہیمبرگ میں بھی حکام نے ٹریفک میں افراتفری کے امکان سے خبردار کیا ہے، کیونکہ ریاست شلسوِگ-ہولسٹین کے کسان بھی اس شہر میں ایک ریلی کے لیے پہنچنے والے ہیں۔

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، ڈی پی اے)

کسان بمقابلہ چانسلر میرکل