1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں شرح پیدائش 43 برسوں میں سب سے زیادہ

شمشیر حیدر Alexander Pearson
28 مارچ 2018

جرمنی کے وفاقی دفتر شماریات کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق سن 2016 میں ملک میں پیدا ہونے والے بچوں کی شرح گزشتہ تینتالیس برسوں کے دوران سب سے زیادہ رہی۔

https://p.dw.com/p/2v7rb
Leipzig Fünf Babys nebeneinander auf einem Bett
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Grubitzsch

بچوں کی پیدائش کی شرح میں اس اضافے کے باوجود یہ شرح ایسی نہیں کہ ملکی آبادی مستقبل میں بھی اتنی ہی رہ پائے، جتنی کہ اس وقت ہے۔ تاہم شرح پیدائش کے حوالے سے اب جرمنی یورپی یونین میں اوسط شرح پیدائش کے قریب آ گیا ہے۔ اٹھائیس رکنی یورپی یونین میں بچوں کی پیدائش کا اوسط تناسب 1.60 بنتا ہے جب کہ جرمنی میں یہ تناسب 1.59 اور فرانس میں 1.92 ریکارڈ کیا گیا۔

کیا جرمنی مہاجرین کا ملک بن جائے گا؟

آبادی کے اعتبار سے یورپ کا سب سے بڑا ملک ہونے کے باجود جرمنی میں سن ستر کی دھائی کے بعد سے بچوں کی کم شرح پیدائش کا مسئلہ درپیش رہا ہے۔

تازہ اعداد و شمار کیا کہتے ہیں؟

  • بچوں کے پیدائش کی تناسب کا مطلب یہ ہے کہ ایک خاتون کتنے بچے پیدا کر رہی ہے۔ سن 2016 میں یہ تناسب 1.59 رہا جب کہ اس سے پچھلے برس یہ تناسب 1.50 تھا۔
  • یہ تناسب سن 1973 کے بعد سے اب تک سب زیادہ ہے۔ ماہرین کے مطابق ترقی یافتہ ممالک میں تناسب 2.1 ہونا چاہیے جس کے بعد مستقبل میں بھی جرمنی مجموعی ملکی آبادی آج کی آبادی جتنی رہ پائے گی۔
  • سن 2016 میں نسلی طور پر جرمن خواتین میں یہ تناسب 1.43 ریکارڈ کیا گیا جب کہ جرمنی میں آباد غیر ملکی پس منظر رکھنے والی خواتین کے بچے پیدا کرنے کا تناسب 2.28 ریکارڈ کیا گیا۔
  • مذکورہ برس کے دوران مجموعی طور پر جرمنی میں سات لاکھ نوے ہزار کے قریب بچے پیدا ہوئے جو کہ 2015ء کے مقابلے میں سات فیصد زیادہ ہیں۔
  • جرمن خواتین کے ہاں چھ لاکھ پانچ ہزار بچے پیدا ہوئے جب کہ ملک آباد غیر ملکی خواتین کے ہاں ایک لاکھ پچاسی ہزار بچے پیدا ہوئے۔
  • سن 2016 تک مسلسل پچاس برس تک ملک میں تعداد کے اعتبار سے بچوں کی پیدائش میں ہر سال اضافہ ہوا۔

شرح پیدائش میں اضافے کی وجہ؟

وفاقی دفتر شماریات کے مطابق اس اضافے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ سن 2016 میں زیادہ تر بچے 30 اور 37 برس عمر کی خواتین کے ہاں پیدا ہوئے۔ ایسی زیادہ تر جرمن خواتین تیس برس کی عمر تک پہنچنے سے قبل بچے پیدا کرنے سے اجتناب کر رہی تھیں۔

ترک ماؤں کے بچے سب سے زیادہ

غیر ملکیوں میں سب سے زیادہ بچے (اکیس ہزار) جرمنی میں مقیم ترک نژاد خواتین کے ہاں پیدا ہوئے اور ان کے بعد شامی خواتین کا نمبر رہا جنہوں نے اٹھارہ ہزار بچے پیدا کیے۔

جرمن قصبوں کی کم ہوتی ہوئی آبادی، نئے پرائیویٹ اسکولوں سے امیدیں