جرمنی میں خواتین کے لیے انتظامی بورڈ میں کوٹا مخصوص کرنے کی تجویز
17 اکتوبر 2011جرمنی میں خواتین کے لیے مینیجمنٹ پوزیشنوں پر خواتین کے لیے تیس فیصد کوٹہ اگر مخصوص ہوجاتا ہے تو یورپ میں ایسا پہلی بار نہیں ہو گا۔ سب سے پہلے یورپی ملک ناروے نے سن 2003 میں انتظامی بورڈ میں 40 فیصد خواتین کی شمولیت کا بل پارلیمنٹ سے منظور کیا تھا۔ اسپین نے اسی طرز کا ایک بل سن 2007 میں نافد کیا اور فرانس بھی گزشتہ سال ایسا قانون نافذ العمل کر چکا ہے۔
ایسا خیال کیا جاتا ہے کہ جرمنی کی اسٹاک مارکیٹ میں رجسٹرڈ کمپنیوں میں ڈھائی فیصد سے بھی کم خواتین انتظامی بورڈ میں شامل ہیں۔ دس سال قبل جرمنی میں رضاکارانہ بنیادوں پر منصوبہ بنایا گیا تھا کہ بڑے ادارے خواتین کے لیے اس سمت میں پیش رفت دکھائیں گے لیکن ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔ اس رجحان کا اندارہ جرمن انسٹیٹیوٹ برائے اقتصادی ریسرچ کی دو خاتون محققین ژولیا شمیٹا (Julia Schmieta) اور ایلکے ہولسٹ (Elke Holst) کی تازہ ریسرچ سے ہو سکتا ہے۔
ایک اور جرمن محقق ژورگن شُپ (Juergen Schupp) کا خیال ہے کہ مالیاتی اعتبار سے مضبوط بڑی کمپنیوں میں کم تعلییم یافتہ خواتین کو انتظامی بورڈ میں پوزیشن دینے کا عمل شروع ہے اور اس سے خواتین کا تناسب بڑھ جائے گا لیکن اس سے بہتر تعلیم یافتہ حضرات کے ساتھ امتیازی سلوک کا خدشہ ہے۔ شُپ کے مطابق اب کئی کمپنیاں جرمن انسٹیٹیوٹ برائے اقتصادی ریسرچ کو نگاہ میں رکھے ہوئے ہیں اور مخلوط انتظامی بورڈ سامنے آنے لگے ہیں جو ایک مثبت تبدیلی ہے۔
ناروے میں جب انتظامی بورڈ میں خواتین کی شمولیت کے قانون کا نفاذ ہوا تھا تو حکومت کی جانب سے ایک ادارہ مرکز برائے کارپوریٹ ڈائیورسٹی قائم کیا گیا۔ اس ادارے کی ڈائریکٹر ماریٹ ہوئل (Marit Hoel) کا کہنا ہے کہ مخلوط انتظامی بورڈوں میں جارحانہ رویہ پیدا ہوا اور اس کی وجہ کم تعلیم یافتہ خواتین کی بورڈ میں شمولیت اور ان میں انتظامی استعداد اور قابلیت کی کمی بھی تھی لیکن اب سب کچھ تبدیل ہو چکا ہے۔ امریکہ کی میشی گن یونیورسٹی نے سن 2010 میں ایک ریسرچ مکمل کی اور اس کے مطابق ناروے میں خواتین کے مینیجمنٹ بورڈ میں شمولیت کے قانون کے نفاذ کے تین دنوں میں کئی بڑی کمپنیوں کے حصص کی قیمتوں میں ڈھائی فیصد سے زائد کی کمی واقع ہو گئی تھی۔
جرمنی میں انتظامی بورڈوں میں خواتین کے لیے مخصوص کوٹے کے حوالے سے ایک ماہر نفسیات دان سارا ہیلڈن برانڈ (Sarah Hildenbrand) کا کہنا ہے کہ اس صورت حال میں ایک خاتون کو اپنے بچے کی پرورش کی فکر لاحق رہے گی۔ یہ امر اہم ہے کہ جرمنی میں بچوں کی بہتر پرورش نہ کرنے والی خواتین کے لیے ایک اصطلاح Rabenmutter موجود ہے۔ جرمنی میں اعداد و شمار کے مطابق تین سال یا اس سے زائد عمر کے 23 فیصد بچے نرسری اسکولوں میں جاتے ہیں۔ جرمن حکومت نے پلان کیا ہے کہ سن 2013 سے ہر بچے کو نرسری اسکولوں میں داخل کروانا لازمی ہو جائے گا۔ ہیلڈن برانڈ کے مطابق اگر ایسا ممکن ہو گیا تو ملازمت کے مقامات خاندان دوست ہو جائیں گے۔
رپورٹ: عابد حسین ⁄ خبر رساں ادارے
ادارت: امجد علی