جرمنی میں انیس عامری کے ممکنہ ساتھیوں کی تلاش جاری
24 دسمبر 2016جرمنی میں کرسمس کے موقع پر سکیورٹی کو انتہائی الرٹ رکھا گیا ہے۔ حکام کے مطابق سینکڑوں تفتیش کار چھٹیوں کے اِس موسم میں اپنے معمول کے کام جاری رکھیں گے تا کہ کسی بھی ناپسندیدہ صورت حال کا فوری جواب دیا جا سکے۔
سکیورٹی کے حوالے سے جرمن وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزئیر نے جمعہ، 23 دسمبر کو کہا تھا کہ برلن حملے کے ملزم کی ہلاکت کے بعد بھی دہشت گردی کے خطرے میں کمی نہیں آئی ہے اور سکیورٹی لیول کم نہیں کیا جائے گا۔
انیس عامری کی ہلاکت کے بعد اُس کا مبینہ ویڈیو پیغام بھی جاری کر دیا گیا۔ اِس پیغام میں جہاں اُس نے ’اسلامک اسٹیٹ’ کے سربراہ ابوبکر البغدادی کے ساتھ وابستگی کا اظہار کیا وہاں اُس نے یورپ میں مقیم مسلمانوں کو نئے حملوں کی ترغیب بھی دی تھی۔
برلن حملے کے بعد چوبیس سالہ تیونسی باشندے کا جرمن جعرافیائی حدود سے باہر نکل جانا بھی حیران کن قرار دیا گیا ہے۔ وہ فرانس سے میلان پہنچا اور انجام کار پولیس کے ساتھ مقابلے میں ہلاک ہو گیا۔
فرانسیسی پولیس کے ملکی سربراہ ژاں مارک فالکوں نے بھی کہا ہے کہ وہ جرمن اور اطالوی پولیس حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں اور اس معاملےکی پوری تفتیش اور تحقیق جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایسے اندازے بھی لگائے گئے ہیں کہ عامری کے فرانس اور اٹلی کے انتہا پسندوں کے ساتھ بھی رابطے ہو سکتے ہیں۔
سکیورٹی ماہرین کا خیال ہے کہ یہ حقیقت ہے کہ عامری کے یورپ بھر میں گرفتاری کے وارنٹ جاری تھے لیکن اُس کا فرار سکیورٹی اداروں کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ چانسلر میرکل نے بھی کہا ہے کہ جامع تجزیے کی ضرورت ہے کہ جہادی جرمن حکام کی نگاہوں سے بچ کر کیسے نکل گیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ عامری کیس نے کئی سوالات اٹھا دیے ہیں اور اِس معاملے کی گہرائی تک چھان بین کے علاوہ تفتیشی عمل میں سبک رفتاری پیدا کرنا بھی وقت کی ضرورت ہے۔
انیس عامری کے ساتھیوں کی تلاش اِس لیے بھی اہم ہے کہ وہ ایک بنیاد برست جہادی مبلغ سے متاثر ہونے کے علاوہ اس سے رابطے میں تھا۔ اس بارے میں جرمن دارالحکومت برلن میں 23 دسمبر کو ایک پریس بریفنگ میں شریک فیڈرل کریمینل دفتر BKA کے سربراہ ہولگر میونش (Holger Muench) کا کہنا تھا کہ انیس عامری کے بنیاد پرست جہادی مبلغ ابو والع کے ساتھ روابط تھے۔ ابو والع نامی مبلغ کو جرمن حکام نے رواں برس نومبر میں گرفتار کیا تھا۔