جرمنی اور یورپ کے گذرے 60 برسوں پر ایک نظر
21 مئی 2009فرانس کے صدر شارل ڈيگال نے چار ستمبر 1962ء کو جرمنی کے ایک دورے کے موقع پر بون کی بلديہ کی عمارت کی بالکنی سے جوشيلے نعرے لگاتے ہوئے عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا: ’’بون زندہ باد، جرمنی زندہ باد ، جرمن فرانسيسی دوستی زندہ باد‘‘
ايک فرانسيسی صدر کا يہ جرمنی کا پہلا دورہ تھا ۔ انہوں نے اپنا صلح جوئی کا پيغام ايک ايسی زبان ميں ديا، جو وہ حقيقتاً اِس سے پہلے کبھی بھی دوبارہ بولنا نہيں چاہتے تھے۔
شارل ڈيگال اور جرمن چانسلر آڈیناؤعر ميں بہت گہری دوستی تھی۔ خاص طور پر ڈيگال کی خواہش تھی کہ دونوں برادر ممالک مل جل کر دوسری عالمی جنگ کے بعد کے يورپ کی سياست کی تشکيل کريں۔ اس کے لئے اُس زمانے میں تازہ تازہ قائم کی جانے والی يورپی اقتصادی برادری کو ايک سياسی يونين ميں تبديل کرنے کا منصوبہ بنا يا گيا۔ آڈیناؤعر نے جنوری 1963ء کو فرانس ميں قصر ايليزے ميں دوستی کے معاہدے پر دستخط کی تقريب ميں فرانسيسی زبان ميں کہا تھا: ’’اس معاہدے کے بغير يورپی اتحاد ممکن نہيں۔ راستے تبديل ہو سکتے ہيں ليکن اہم ترين بات يہ ہے کہ دوستوں کے اعتماد کو کبھی کھويا نہ جائے۔
یورپ میں اور خاص طور پر جرمنی اور فرانس کے مابين تصادم کی بجائے دوستی اور ملاپ کا جذبہ اس کے بعد آنے والی نسلوں ميں بھی باقی رہا۔ تاہم يورپی برادری کے راستے ميں مشکلات حائل ہوتی رہيں۔ جب تک ڈيگال زندہ رہے، وہ برادری ميں برطانيہ کی شموليت کو روکتے رہے۔ اس کے بعد مالی معاملات کے بارے ميں تنازعات پيدا ہوتے رہے۔ 1989ء میں جرمنی کے دوبارہ متحد ہونے کے بعد خاص طورسے پيرس میں جرمنی کے ايک بڑی طاقت بننے سے خوف پيدا ہوا، ايک ايسےجرمنی کا خوف، جس کو يورپ پر غلبہ حاصل ہو۔ اسی لئے اُس وقت کے فرانسيسی صدر متراں نے ايک ايسے جرمنی کا مطالبہ کيا، جو يورپی ہو۔
جرمن فرانسيسی دوستی کے عزم کا اظہار موجودہ جرمن چانسلر ميرکل اور فرانسيسی صدر سارکوزی بھی کرتے رہتے ہيں، ليکن اِن ميں وہ جوش وخروش نظر نہيں آتا، جو آڈیناؤعر اور ڈيگال يا پھر متراں اور کوہل کے دور ميں پايا جاتا تھا۔