1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جبری گمشدگیاں: بلوچستان آج بھی سب سے زیادہ متاثر

30 اگست 2019

پاکستان میں انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ عدالت اعظمیٰ جبری گمشدگیوں کے مسئلے سے بظاہر پیچھے ہٹ گئی ہے اور اس معاملے پر قائم کمیشن تقریباً غیر فعال ہو چکا ہے۔

https://p.dw.com/p/3OjpT
تصویر: DW/Shadi Khan Saif

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا کہ سن دو ہزار اٹھارہ کے دوران صوبہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کی کم از کم 541 رپورٹیں منظر عام پر آئیں۔ ان میں سیاسی کارکنان، طالب علم، وکیل، صحافی اور قوم پرست تنظیموں سے وابستہ افراد شامل ہیں۔ انسانی حقوق کمیشن کے مطابق کچھ لوگ بازیاب ہوتے ہیں تو ان سے زیادہ لاپتہ ہو جاتے۔

کمیشن کے چیئرپرسن ڈاکٹر مہدی حسن کے مطابق پاکستان میں لاپتہ ہونے والے لوگوں میں تین طرح کے افراد ہیں: کچھ لوگ ایسے ہیں جو ناجائز یا غیر قانونی طور پر ملک سے باہر چلے جاتے ہیں اور ان کے بارے میں کوئی اطلاعات نہیں ملتی۔ پھر وہ لوگ ہیں جنہیں سکیورٹی ادارے اٹھا کر لے جاتے ہیں جبکہ باقی ایسے لوگ ہیں جو غیر قانونی طور پر حراستی مراکز یا عقوبت خانوں میں بند ہیں۔

Aktivistin Amina Janjua Masood
تصویر: DW/M. A. Sumbal

پاکستان میں لاپتہ افراد یا جبری گمشدہ افراد کو بازیاب کروانے کے لیے سرگرم ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی چیئرپرسن آمنہ مسعود جنجوعہ کا کہنا ہے کہ ان کی تنظیم سپریم کورٹ میں کئی سو گمشدہ افراد کے مقدمے دائر کر چکی ہے، ’’ہم چودہ سالوں میں اب تک تقریباً 749 کیس عدالتوں میں دائر کر چکے ہیں۔ ہماری تنظیم کو پاکستان بھر سے 2650 درخواستیں موصول ہوئیں ہیں۔ ہماری کوششوں کے بعد حکام نے ساڑھے نو سو لوگوں کا سراغ لگایا جبکہ تین سو ستر کو بازیاب کرایا گیا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ستر کے قریب گمشدہ افراد کی میتیں بھی موصول ہوئیں۔‘‘

آمنہ مسعود کے مطابق اس وقت صورت حال یہ ہے کہ سپریم کورٹ بالکل پیچھے ہٹ چکی ہے اور اس نوعیت کے تمام کیسز کمیشن کے سپرد کر دیے ہیں، جس کے کارکردگی تسلی بخش نہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ سپریم کورٹ میں اس کمیشن کی غیر اطمینان بخش کارکردگی پر ایک پٹیشن دائر کی گئی ہے اور اُسے ابھی تک سنا ہی نہیں گیا۔

جنجوعہ کے مطابق یہ کمیشن آٹھ برس سے چل رہا ہے اور اس کو ریٹائرڈ جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں جاری رکھا گیا ہے اور وہ چئیرمین نیب بھی ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ اُن سے دونوں ذمہ داریاں نبھانے کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟

Pakistan Javed Iqbal Leiter der Abbottabad Kommission
تصویر: picture-alliance/dpa

پاکستان میں حکومت نے رواں برس جبری گمشدگیوں کی روش کی روک تھام کے لیے اس میں ملوث افراد کے خلاف ملک کی عام عدالتوں میں ضابطہ فوجداری کے تحت مقدمات چلانے کی بات کی تھی۔

لیکن آمنہ مسعود جنجوعہ کے مطابق پی ٹی آئی حکومت کی طرف سے اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، ''پچھلے سال آج ہی کے دن ہمارے احتجاج میں انسانی حقوق کی وزیر سیریں مزاری نے وعدہ کیا تھا کہ حکومت جبری گمشدگیاں بند کرانے کے لیے قانون سازی کرے گی۔ کچھ عرصہ ہمارا ان کے ساتھ رابطہ رہا اور انہوں نے کہا کہ ہم نے تجاویز بنا کر وزارت قانون کو بھیج دیں ہیں لیکن ایک برس گزر جانے کے باوجود کچھ نہیں ہوا۔‘‘

Pakistan Protest gegen Entführung des Friedensaktivisten Raza Khan
تصویر: Atiqa Shahid Khan

پاکستان میں لاپتہ افراد کا کھوج لگانے کے لیے سن دو ہزار گیارہ میں ایک انکوائری کمیشن قائم کیا گیا تھا۔ اس کمیشن کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق خیبر پختونخوا میں 2351  افراد، سندھ میں 1571، پنجاب میں 1323 جبکہ بلوچستان میں 449 لوگ لاپتہ ہوئے۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والوں کے مطابق بلوچستان سے لاپتہ ہونے والے افراد کی تعداد کم بتائی جاتی ہے لیکن ان کی اصل تعداد کہیں زیادہ ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید