1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تیونس: سرکاری عمارات میں نقاب پر پابندی عائد

6 جولائی 2019

مسلمان ملک تیونس نے تمام سرکاری دفاتر میں خواتین کے چہرے کے مکمل پردے یا نقاب پر پابندی عائد کر دی ہے۔ وزیراعظم یوسف شاہد کے مطابق یہ فیصلہ سلامتی کے خدشات کے باعث کیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3LgLJ
Frankreich Justiz l Schleierverbot
تصویر: picture-alliance/dpa/I. Langsdon

شمالی افریقی ملک تیونس کے دارالحکومت میں جون کے آواخر میں ہونے والے دو خودکش حملوں کے بعد وزیراعظم یوسف شاہد ملک بھر کی سرکاری عمارتوں میں خواتین کے نقاب کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ ان حملوں میں دو افراد ہلاک جبکہ دیگر سات زخمی ہو گئے تھے۔

وزیراعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے، ''حکومت نے عوامی انتظامیہ اور سرکاری اداروں تک ایسی تمام خواتین کی رسائی روک دی ہے، جنہوں نے نقاب کیا ہو گا۔ یہ فیصلہ سکیورٹی خدشات کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔‘‘

گزشتہ جمعرات کو تیونس میں حملوں کے ماسٹر مائنڈ نے دارالحکومت کے مضافات میں خود کو دھماکے سے اڑا لیا تھا تاکہ وہ گرفتاری سے بچ سکے۔  عینی شاہدین کے مطابق اس مبینہ ملزم نے خود کو بچانے کے لیے ایک برقعہ پہن رکھا تھا۔

پولیس کو الرٹ رہنے کی ہدایات

تیونس حکومت نے فروری 2014ء میں پولیس کو ہدایات جاری کی تھیں کہ مکمل نقاب کرنے والوں پر سخت نگاہ رکھی جائے۔ یہ حکم نامہ بھی انسداد دہشت گردی کے لیے جاری کیا گیا تھا تاکہ دہشت گردی میں ملوث افراد بھیس بدل کر فرار ہونے میں کامیاب نہ ہوں۔

Tunesien Doppel-Selbstmordanschlag in Tunis
گزشتہ جمعرات کو تیونس میں حملوں کے ماسٹر مائنڈ نے دارالحکومت کے مضافات میں خود کو دھماکے سے اڑا لیا تھاتصویر: Reuters/Z. Souissi

تیونس میں نقاب اور اس طرح کے دیگر لباسوں پر سیکولر صدر زین العابدین بن علی کے دور حکومت میں پابندی عائد کر دی گئی تھی لیکن سن 2011 میں بن علی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا تھا اور اس کے بعد سے نقاب کرنے کی دوبارہ اجازت فراہم کر دی گئی تھی۔

تیونس میں ردعمل

اس پابندی کے جواب میں تیونس کے عوام نے ملا جلا ردعمل ظاہر کیا ہے۔ ایک لڑکی الہم کا دارالحکومت تیونس میں نیوز ایجنسی اے پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''موجودہ صورتحال کے پیش نظر انہیں اس پر پابندی عائد کرنے کا حق پہنچتا ہے۔‘‘

ایک دوسری خاتون لینا کا کہنا تھا، '' سوال یہ ہے کہ جب بھی سکیورٹی خدشات پیدا ہوتے ہیں تو خواتین کو ہی کیوں قربانی کا بکرا بنایا جاتا ہے؟‘‘

تیونس میں ڈیفنس آف ہیومن رائٹس نے مطالبہ کیا ہے کہ یہ فیصلہ عارضی ہونا چاہیے۔ انسانی حقوق کی اس تنظیم کے سربراہ جمیل مصالم کا کہنا تھا، ''ہم لباس کی آزادی کے حق میں ہیں لیکن موجودہ صورتحال اور دہشت گردی کے خطرے کے باعث حکومت کو یہ فیصلہ کرنے کا حق پہنچتا ہے۔‘‘   

ان کا کہنا تھا کہ جونہی سکیورٹی کی صورتحال بہتر ہوتی ہے، اس پابندی کو ختم ہو جانا چاہیے۔ ماضی میں سکیورٹی وجوہات کی بنیاد پر دنیا کے کئی دیگر ممالک میں بھی نقاب پر پابندی عائد کی جا چکی ہے۔

ا ا / ع ا (اے ایف پی، اے پی، ڈی پی اے)