1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تین خواتین صحافیوں کو ایوارڈ، صحافت نے زندگی خطرے میں ڈال دی

13 ستمبر 2019

تین خاتون صحافیوں کو عالمی تنظیم رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز نے رواں برس کے آزادیء صحافت ایوارڈز کا اعلان کیا ہے۔ صحافتی ذمہ داریوں کی وجہ سے ان خواتین نے اپنی زندگیاں خطرے میں ڈال لیں۔

https://p.dw.com/p/3PWyQ
Preisträger Press Freedom Awards von Reporter ohne Grenzen
تصویر: RSF

گزشتہ روز رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز کی جانب سے ان صحافیوں کو ایوارڈز دینے کی تقریب منعقد کی گئی، تاہم ان میں سے دو صحافی کو اس تقریب میں شرکت کے لیے ملک چھوڑے کی اجازت نہ مل سکی۔ ان تین خواتین صحافیوں کا تعلق مالٹا، سعودی عرب اور ویت نام سے ہے۔

مالٹا سے تعلق رکھنے والے کیرولین مسکاٹ کے مطابق کبھی کبھی آزادیء صحافت کے لیے لڑائی اتنی اہم ہو جاتی ہے کہ ایک صحافی ایک ایکٹیویسٹ  بننے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ مالٹا سے تعلق رکھنے والے مسکاٹ تین انعام یافتگان صحافیوں میں وہ واحد صحافی تھیں، جو اس تقریب میں شریک ہو پائیں۔ اس حوالے سے تقریب جمعرات کی شام جرمن دارالحکومت برلن میں منعقد کی گئی۔ مسکاٹ کو اس تقریب میں 'انعامِ آزادی‘ دیا گیا۔

ویت نامی بلاگر پھام ڈوان ترانگ کے حصے میں 'انعامِ تاثیر‘ دیا گیا جب کہ سعودی عرب سے تعلق رکھنے والی خاتون صحافی اور انسانی حقوق کی سرگرم کارکن ایمن النفجان کو 'انعامِ بہادری‘ دینے کا اعلان کیا گیا۔

Infografik Pressefreiheit 2019 EN

 ان دونوں خواتین پر اپنے اپنے وطن کو چھوڑنے پر پابندی عائد ہے، جب کہ ان کی ویب سائٹس بلاک ہیں اور یہ دونوں صحافی گرفتاری جیسے خطرات کا شکار ہیں۔

ان دونوں خواتین کے انعامات ان کے نمائندہ دوستوں نے وصول کیے۔ ترانگ کی جانب سے ہو لونگ ترینہ کو انعام وصول کرنے کے لیے اس تقریب میں بھیجا گیا تھا۔ ترینہ  تائی پے میں مقیم ہیں جب کہ سعودی صحافی کی نمائندگی ان کی سابقہ طالب علم عمیمہ النجار نے کی، جو اب خود بھی اپنی انعام یافتہ استاد کی طرح سعودی خواتین کے حقوق کے لیے ایک بلاگ چلا رہی ہیں اور یہ اٹلی میں مقیم ہیں۔

رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈز کی جانب سے رواں برس کے لیے جاری کردہ آزادیء صحافت کے عالمی انڈیکس کا اجرا بھی کیا گیا ہے۔ اس انڈیکس کے مطابق جنوبی ایشیا میں بھارت اور پاکستان میں صحافیوں کو کئی طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔

بین نائٹ، ع ت، ک م