تہیں کھلنے کے ساتھ ساتھ پرزم اپنا رنگ دکھا رہا ہے
18 جولائی 2013پرزم ہی کے نام سے جاسوسی کے ایک اور پروگرم نے برلن حکومت کو حیران کر دیا ہے۔ اس دوران جاسوسی کے اسیکنڈل میں نئی غیر یقینی کی صورتحال سامنے آ رہی ہے۔ جرمن روزنامے بلڈ نے پرزم ٹو کے راز کو افشاء کیا ہے۔ بلڈ کے مطابق پرزم ٹو افغانستان کے لیے ہی تھا اور یہ ’ JWICS‘ نامی انتہائی خفیہ کمپیوٹر نیٹ ورک کے ذریعے چلتا تھا۔ اس پروگرام تک صرف امریکی خفیہ ادارے کے اہلکاروں اور وزارتی سطح کے اعلی امریکی عہدیداروں کو رسائی حاصل تھی۔ اسی طرح آئی سیف دستوں کے لیے بھی ایک خفیہ پروگرام تھا، جس پر موجود مواد نیٹو مشن میں شامل تمام ممالک کی دسترس میں تھا۔
جرمن خفیہ ادارے بی این ڈی کے مطابق نیٹو اور آئی سیف کے لیے پرزم اور قومی سلامتی کے امریکی ادارے کے پرزم پروگرام میں واضح فرق ہے۔ ایک پروگرام کا مقصد افغانستان میں مشتبہ دہشت گردوں کی نگرانی کرتے ہوئے نیٹو دستوں کی حفاظت کو یقینی بنانا تھا جبکہ دوسرا پرزم پروگرام وہ ہے ، جس کی مدد سے این ایس اے نے جرمن سرزمین پر لاکھوں شہریوں کا ڈیٹا جمع کیا ہے۔
روزنامے بلڈ نے امریکی ذرائع کے توسط سے لکھا ہے کہ افغانستان میں پرزم پروگرام قومی سلامتی کے امریکی ادارے این ایس اے کے ڈیٹا بینکس مارینا اور مین وے کی مدد سے چلتا تھا۔ مارینا میں انٹرنیٹ سے متعلق تمام تفصیلات جمع کی جاتی ہیں جبکہ مین وے ٹیلیفون کے ذریعے ہونے والی گفتگو کے حوالے سے ڈیٹا جمع کرتا ہے۔
اس دوران امریکا میں انٹرنیٹ اور ٹیلیفون گفتگو کی خفیہ نگرانی کرنے کے خلاف شدید احتجاج کیا گیا ہے۔ شہری حقوق کی تنظیموں نے قومی سلامتی کے امریکی ادارے کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا ہے۔ اسی دوران پرزم کو منظر عام پر لانے والے سی آئی اے کے سابق ملازم ایڈورڈ سنوڈن کو پناہ دینے کے معاملے میں روس اور امریکا کے مابین تعلقات میں سرد مہری بھی آتی جا رہی ہے۔