1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تعليمپاکستان

تعلیم تو سمجھ آتی ہے، یہ تربیت کیا چیز ہے؟

8 فروری 2022

تعلیم کیا ہے اور پھر تربیت کیا ہے؟ پی ٹی وی تھا تب بھی اشرافیہ کے سند یافتہ صوفی و بزرگ قوم کی تربیت کر رہے تھے۔ آج جب چینلوں کا مینا بازار لگا ہوا ہے تو بھی اسی سلسلے کے بزرگ بیٹھے تربیت کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/46fSg
DW Urdu Blogger Farnood Alam
تصویر: Privat

’’ہمارا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں تعلیم تو بہت ہے مگر تعلیم کے ساتھ ایک چیز تربیت ہوا کرتی تھی، وہ نہیں رہی۔‘‘ جب بھی ایسی کوئی آواز سنائی دیتی ہے میری گھبراہٹ حد سے گزر جاتی ہے۔ بیچ گفتگو کے ٹوک کر کوئی پوچھتا کیوں نہیں ہے؟ قبلہ یہ جو مارا ماری ہم دیکھ رہے ہیں، کیا یہ تربیت کا نتیجہ نہیں ہے؟ ہر دو حادثوں کے بیچ کا وقفہ یہ جاننے کے لیے کیا کافی نہیں ہے کہ تربیت کا سفر پہلے سے کہیں زیادہ رفتار کے ساتھ جاری ہے؟ 

اساتذہ اگر اپنی ساری توجہ اپنی بنیادی ذمہ داری یعنی تعلیم کی فراہمی پر رکھتے تو کیا غم تھا؟ غم تو یہ ہے کہ پڑھایا دھیلے کا نہیں اور عمر تربیت میں گزار دی۔ یہ مسئلہ محض اساتذہ کا ہوتا تو بھی کوئی بات تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ حالات نصاب کے بھی بہت پتلے ہیں۔ ہمارا نصاب تعلیم کم دیتا ہے، ہر دو سطر کے بیچ تربیت کے ٹانکے زیادہ لگا رہا ہوتا ہے۔  

سوال یہ ہے کہ تعلیم کیا ہے اور پھر تربیت کیا ہے؟ تعلیم تو یہ ہے کہ آپ درس گاہ میں سیدھے سبھاو سائنسی فارمولے پڑھائیں اور سائنسی بنیادوں پر ہی بحث کریں۔ تربیت یہ ہے کہ یہ بھی بتایا جائے کہ سائنس محض دھوکا ہے، اصل بات وہی ہے، جو نمازِ جمعہ سے کچھ دیر پہلے مولوی صاحب بتاتے ہیں۔

 تعلیم یہ ہے کہ آپ مذاہب کا تعارف کرائیں اور آگے بڑھ جائیں۔ تربیت یہ ہے کہ ہم بحیثیتِ مسلمان ایک قوم ہیں اور ہمیں باقی کی تمام اقوام پر فضیلت دی گئی ہے۔

 تعلیم یہ ہے کہ صنف کی بنیاد پر تفریق کرنا جرم ہے۔ تربیت یہ ہے کہ عورت محکوم ہے، ادھوری ہے، ناقص العقل ہے اور  گواہی میں آدھی ہے۔

تعلیم یہ ہے کہ فرد آزاد ہے۔ تربیت یہ ہے کہ اگر آپ باپ، شوہر، استاد، افسر، باس اور سرپرست ہیں تو انسان کے ذاتی دائرے میں ناک دینا آپ کا پیدائشی حق ہے۔

 تعلیم یہ ہے کہ حکمرانی کا حق عوام کو حاصل ہے۔ تربیت یہ ہے کہ حکیم الامت علامہ اقبال ہمارے قومی شاعر ہیں اور جمہوریت بارے ان کی رائے اچھی نہیں تھی۔

تعلیم یہ ہے کہ تکثیریت کو حقیقت مان کر چلا جائے تو اجتماعی اطمینان جنم لیتا ہے۔ تربیت یہ ہے کہ تکثیریت کو حقیقت مانو گے تو یہ ملک ٹوٹ جائے گا۔

تعلیم یہ ہے کہ اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں۔ تربیت یہ ہے کہ جو مسلمان نہیں ہیں وہ یہاں اقلیت کی حیثیت سے رہیں گے۔ 

پچھلے پندرہ برسوں میں دیکھا گیا کہ پڑھے لکھے افراد بہت اہم ذمہ داریوں پر آگے آ رہے ہیں۔ یہ اپنی شائستگی، محنت، لگن اور جدت کی وجہ سے الگ ہی دکھائی دیتے تھے۔ کسی بھی اسامی کے لیے یہ اپنی سی وی آگے کرتے ہاتھوں ہاتھ لے لیے جاتے۔

یہ نوجوان دفتروں میں چلنے والی منافقانہ چالوں، فرقہ ورانہ سرگرمیوں، صنف پر مبنی امتیازی رویوں، افسر نوکر والے چونچلوں اور کسی کی ذاتی زندگی میں جھانکا تانکی کرنے سے باز رہتے تھے۔

پہلے پہل تو لگا کہ یہ پود ولایت سے پڑھ کر آئی ہے تبھی اتنی ''بگڑی‘‘ ہوئی ہے۔ پتہ چلا کہ ان میں سے تو بہت سے جوان کبھی ملک سے باہر ہی نہیں گئے۔ تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ کراچی اور لاہور میں ایسی جامعات قائم ہو چکی ہیں، جو تربیت کی آلودگی سے پاک صاف تعلیم مہیا کر رہی ہیں۔ فوری طور پر ان جامعات کا گھیراو کر لیا گیا۔ چن چن کر ایسے اساتذہ کو برخاست کروا دیا گیا جن کے پاس علم تھا اور ذہانت تھی۔

سرکاری جامعات میں بھی، جہاں کہیں ایسے اساتذہ نظر آئے، جو تربیت پہ یقین نہیں رکھتے، ان کا حقہ پانی بند کر دیا گیا۔ سوشیالوجی، سائنس، فلسفہ، تاریخ اور ادب کے جو اساتذہ ابھی تک ان جامعات میں ٹِکے ہوئے ہیں، وہ اپنی شاطری سے ٹِکے ہوئے ہیں۔ وہ یہ تاثر قائم کرنے میں ابھی تک کامیاب ہیں کہ ہم پڑھا نہیں رہے، تربیت ہی کیے جا رہے ہیں۔ 

ڈاکٹر اقبال احمد پاکستان میں پیدا ہونے والا ایک غیر معمولی ذہن تھا۔ نوم چومسکی اور ایڈورڈ سعید سے انہیں صحبت تھی۔ امریکا کی جامعات میں پڑھاتے تھے اور عالمی جرائد میں لکھتے تھے۔ تیس برس قبل انہوں نے اسلام آباد میں خلدونیہ کے نام سے ایک جدید عالمی یونیورسٹی قائم کرنے کا خواب دیکھا۔ اسلام آباد میں زمین بھی لے لی گئی، نقشہ بھی تیار ہو گیا اور رقم کا بندوبست بھی ہو گیا۔

 عین موقع پر سرکار نے سوچا کہ ذرا دیکھیں تو سہی ہونے کیا جا رہا ہے۔ اقبال صاحب پڑھے لکھے آدمی ہیں، ضرور ان میں کوئی مسئلہ ہو گا۔ دیکھا تو معلوم ہوا کہ ان کے عزائم میں تو سر تا سر تعلیم ہی تعلیم ہے، تربیت کا سرے سے کوئی گزر ہی نہیں ہے۔ چنانچہ صبح کا سورج طلوع ہونے سے پہلے خلدونیہ کی زمین کی الاٹمنٹ منسوخ کر دی گئی۔ 

اسی اسلام آباد میں ہر پانچ کلومیٹر کے بعد قبضے کی کسی زمین پر مسجد بنی ہوئی ہے۔ گرین بیلٹ ہو، بڑی پارکنگ لاٹ ہوں یا مراکز ہوں، ہر جگہ کوئی مولوی دو کمروں کے ایک گھر کے لیے جامع مسجد بنا کر بیٹھا ہے۔ کبھی آپ نے محسوس کیا کہ سرکار کو اس لاقانونیت اور قبضہ گیری پر کسی قسم کی کوئی تشویش لاحق ہے؟ نہیں، ہر گز نہیں۔ کیوں؟ کیونکہ یہ مسجدیں محض مسجدیں نہیں ہیں، یہ قوم کی ''تربیت‘‘ کرنے والے مراکز بھی ہیں۔ 

جب اکیلا ایک پی ٹی وی تھا، تب بھی اشرافیہ کے سند یافتہ صوفی و بزرگ قوم کی تربیت کر رہے تھے۔ آج جب چینلوں کا مینا بازار لگا ہوا ہے تو بھی اسی سلسلے کے بزرگ بیٹھے تربیت کر رہے ہیں۔ کوئی ایک ڈرامہ یا ایک فلم اٹھاکر دیکھیں اور پھر دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیا واقعی تربیت کی کوئی کمی ہے؟ جس فلم اور ڈرامے میں تربیت کی کمی ہو اسے یہاں نشر کرنے کی اجازت بھی کیسے مل سکتی ہے۔  

موجودہ حکومت نے شفقت محمود صاحب کو تعلیم کی وزارت سونپی تو لوگوں کو گمان ہوا کہ واقعی تعلیمی انقلاب آنے والا ہے۔ اپنی تحریروں اور ذاتی ترجیحات کے سبب گمان ہوتا تھا کہ وہ نئے دور کے نئے تقاضوں کو سمجھتے ہیں۔ مگر وہ آئے تو اپنی ٹانگوں پر چل کر نہیں آئے۔ آتے ہی انہوں نے بتا دیا کہ وہ مجبور ہیں۔ وہ اس قوم کو وہ سب نہیں دے پائیں گے، جو انہوں نے اپنی اولاد کو دیا ہے۔

اولاد کو انہوں نے تعلیم دی تھی، قوم کو وہ تربیت دے رہے ہیں۔ ان کے انقلابی اقدامات میں سب سے پہلے عربی لازم کی گئی۔ دوسرے مرحلے میں کچھ سورتوں کو حفظ کرنا لازم ہوا۔ تیسرے مرحلے میں مخلوط نظامِ تعلیم پر سفارشات مرتب ہوئیں۔ اب جہاں جہاں ان کی حکومت کا زور ہے، وہاں وہاں طالبات کے لیے پردہ لازم کرنے کا معاملہ زیر غور ہے۔ 

تربیت کو رونے والے غم خوارانِ ملت کو کچھ دیر رکنا ہو گا، رک کر گہرا سا سانس لینا ہو گا اور ایک سوال سامنے رکھنا ہو گا۔ ہمارے ہاں پائی جانے ولی فرقہ واریت، تفریق، امتیاز، مداخلت، تسلط، جبر، تقسیم، نفرت، عدمِ برداشت، سیاست سے لاتعلقی، جمہوریت سے بیزاری، تنقیدی مطالعے سے فرار اور فنونِ لطیفہ سے نفرت  کس چیز کا شاخسانہ ہے؟ کیا یہ پچھلے پچاس سالوں میں ہونے والی اسی چیز کا شاخسانہ نہیں ہے، جسے ہم تربیت کہتے ہیں؟ 

اس ملک کو معاشی، سیاسی، معاشرتی اور تعلیمی بدحالیوں سے وہی لوگ نکال سکتے تھے، جن کی تربیت میں کوئی کمی رہ گئی ہے۔ مشکل یہ ہے کہ وہ لوگ کچھ وقت تک خون جلانے کے بعد باہر چلے گئے ہیں۔ ساری دنیا ان کی ذہانت اور صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا رہی ہے۔

 پیچھے ہمارے پاس صرف تربیت رہ گئی ہے، جو ہماری بدحالیوں میں پورے خلوص کے ساتھ اضافہ کر رہی ہے۔ اب بھی ان بدحالیوں سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے، اگر نصاب کو اور اساتذہ کو اس بات کا پابند کر دیا جائے کہ اب سے آپ طلبا کو تربیت نہیں دیں گے، تعلیم دیں گے اور فقط تعلیم دیں گے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔