ترک وطن کیا ہے؟ ناروے کے بچے بھی ایک دن کے مہاجر
11 مارچ 2016سخت سردی اور تھکن کے باوجود ان مہاجرین نے اپنا سامان اپنے کاندھوں پر اٹھا کر آگے ہی جانا ہے۔ سفر ابھی جاری ہے۔ یہ مناظر بلقان کی کسی ریاست کے نہیں جہاں مہاجرین کا انبوہ مغربی یورپ میں داخل ہونے کی کشمکش ہے۔ یہ کوئی حقیقی مہاجر بھی نہیں ہیں، جن کو اپنے مستقبل کا کوئی علم نہیں ہے۔ یہ تو دنیا کے امیر ترین ملکوں میں سے ایک ناروے کے ٹین ایجرز ہیں۔
دنیا کی تمام تر آسائشوں اور راحتوں سے مالا مال یہ ٹین ایجرز چوبیس گھنٹوں کے لیے سڑکوں پر ہیں، مختصر وقت کے لیے انہیں مہاجرین کی طرح زندگی بسر کرنا ہے۔ شمالی یورپ میں ’سول کنفرمیشن‘ کے سیکولر نظریے کے تحت بچوں کو بلوغت کے لیے تیار کرتے ہوئے اس طرح کے ایونٹ منعقد کیے جاتے ہیں۔ اگرچہ اس ایونٹ کا تعلق مہاجرین کے موجودہ بحران سے ہرگز نہیں ہے لیکن یورپ میں مہاجرین کے شدید بحران کی وجہ سے یہ ایونٹ کچھ نمایاں ہو گیا ہے۔
ناورے کے جنگل میں موجود ان بچوں نے رات بھر مستقبل کی زندگی کی ممکنہ صعوبتوں کو برداشت کرنے کا سبق سیکھنا ہے۔ ’’مجھے اپنی زندگی سے نفرت ہو چکی ہے‘، مختصر وقت میں ہی ایک بچی چیختی ہے جبکہ دیگر بچے کھڑے کھڑے ہی نیند کی کیفیت میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ ایک ہی رات میں ان بچوں نے ایک فرضی شورش زدہ علاقے سے فرار ہو کر ایک ایسے مقام تک پہنچنا ہے، جہاں سکون ہے۔
اقوام متحدہ کا فرضی کیمپ جہاں ان بچوں کو ایک رات کا قیام میسر ہوا، وہ بھی اچانک ایک (فرضی) حملے کی زد میں آ گیا۔ اب ان بچوں کو وہاں سے بھی بھاگنا ہے۔ بھوک، نیند اور تھکن تو ہیں ہے لیکن زندگی بچانے کے لیے وہاں سے فرار بھی ضروری ہے۔ یہ سب ایک ڈارمے کے طور پر ہو رہا ہے لیکن بچوں کو منتظمین کے احکامات کو بہرحال ماننا ہے۔ اس دوران ان بچوں کو فرضی سرحدیں بھی عبور کرنا ہیں اور سکیورٹی فورسز کے چلاتے ہوئے اہلکاروں کی آوازوں پر بھی غور کرنا ہے۔
تنہا یورپ آنے والے نابالغ تارکین وطن
مہاجرين کی خواتين کے احترام کے لیے خصوصی تربیت
ان چوبیس گھنٹوں کے دوران ان بچوں نے بہت سے مشکلات کا سامنا کرنا ہے۔ اوسلو سے ایئر پورٹ سے شروع ہونے والا یہ سفر برفانی جنگلات سے ہوتا ہوا بالآخر دوبارہ دارالحکومت اوسلو میں ختم ہوا۔ ناروے نے سن 2004 میں بچوں کی تربیت کے پروگرام کا یہ تصور ڈنمارک سے لیا تھا۔ اب تک ناروے کے اسّی ہزار بچے ایک ایک دن ’مہاجرین‘ کے طور پر گزار چکے ہیں۔ یوں انہیں آرام دہ زندگی سے نکل کر انسانی تکلیف کا اندازہ ہو چکا ہے۔
ناروے کے غیر سرکاری ادارے ’ریفیوجی ناروے‘ کے نائب سربراہ لاسے موئن سورنسن نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس طرح کے ایونٹس مہاجرین کے مسائل کے بارے میں آگہی کے فروغ میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
اس ایونٹ میں شریک ایک ٹین ایجر بریگِٹ سولئی نے ایک رات کی تکالیف اٹھانے کے بعد اعتراف کیا، ’’ہم بہت خوش قسمت ہیں۔‘‘ چوبیس گھنٹے تک مہاجر کا کردار ادا کرنے والی سولئی نڈھال تھی اور بے خوابی کی وجہ سے اس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔
’ریفیوجی ناروے‘ کے بانی کینتھ جانسن کے مطابق اس طرح کے ایونٹ سعی و خطا سے سیکھنے کی ایک کوشش ہے۔ انہوں نے کہا، ’’اگر آپ مہاجرین کے بارے میں پڑھ کر علم حاصل کریں گے تو اس کا صرف بیس فیصد ہی آپ کو یاد رہے گا لیکن اگر آپ اس کا بذات خود تجربہ کریں گے تو آپ اسّی فیصد تک کبھی نہیں بھول پائیں گے۔ یہ تجربہ آپ کو زندگی بھر یاد رہے گا۔‘‘
اس ایونٹ کے بعد بچوں کو کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے تجربات کو بیان کریں اور ان کا جائزہ لیں۔ جانسن اس مرحلے میں بچوں کی مدد بھی کرتے ہیں۔ جانسن نے ان بچوں کو بتایا، ’’یہ رات زندگی بھر نہ بھولیں، جب آپ نے بے سروسامانی میں اپنی زندگی بچانے کی کوشش کی۔ اسی کیفیت میں ساٹھ ملین لوگ مبتلا ہیں، جو ہر روز انہی مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔‘‘
اس ایونٹ کے اختتام پر جانسن نے بچوں سے یہ بھی کہا، ’’آپ کے لیے یہ صرف ایک کھیل تھا۔ حقیقی مہاجرین کے لیے ایسی دنیا ایک دوزخ ہوتی ہے۔‘‘