1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمشرق وسطیٰ

ترک فضائیہ کے عراق میں عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر حملے

5 اکتوبر 2023

انقرہ کا کہنا ہے کہ اس کی وزارت داخلہ پر ہونے والے بم حملے میں جو بھی لوگ ملوث ہیں، ان کا تعاقب جاری رہے گا۔ ادھر شام میں بسنے والے کردوں کا کہنا ہے کہ ان کا اس حملے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

https://p.dw.com/p/4X7vt
ترکی کے جیٹ طیاروں کی شام میں کرد ٹھکانوں پر بمباری
ترکی نے اتوار کے حملے کے چند گھنٹوں کے اندر ہی عراق میں پی کے کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے تھے اور پھر بدھ کو دوبارہ حملہ کر کے عسکریت پسندوں کی ایک بڑی تعداد کو ''بے اثر'' کرنے کا دعوی کیاتصویر: Baderkhan Ahmad/AP/picture alliance

ترکی کے وزیر خارجہ حاکان فدان نے بدھ کے روز اعلان کیا کہ ترک افواج نے کالعدم کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کے زیر قبضہ عراقی ٹھکانوں پر ایک بارپھر فضائی حملے کیے ہیں۔ اسی گروپ نے اتوار کے روز ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں ہونے والے ایک بم حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

ترکی نے عراق میں مشتبہ کرد عسکریت پسندوں کو نشانہ بنایا

اتوار کو ہونے والے حملے میں ترکی کی وزارت داخلہ کو نشانہ بنایا گیا تھا، جس میں ایک حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ اس سے دو سکیورٹی اہلکار زخمی ہو گئے تھے، جبکہ دوسرا حملہ آور پولیس کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں مارا گیا۔

ترکی: انقرہ میں ’دہشت گردوں‘ کا وزارت داخلہ پر حملہ

اس کے بعد حکام نے درجنوں ''مشتبہ افراد'' کو حراست میں لیا ہے، خاص طور پر کرد اکثریتی جنوب مشرقی ترکی سے، جس کی سرحدیں عراق اور شام سے ملتی ہیں۔

روس اور مغرب دونوں پر یکساں اعتماد ہے، ترک صدر ایردوآن

ترکی کی عراق اور شام میں تیسرے فریق کو تنبیہ

ٹی وی پر نشر ہونے والے تبصروں میں فدان نے کہا کہ ترک جیٹ طیاروں نے عراق میں پی کے کے کے ٹھکانوں پر دو فضائی حملے کیے۔

ان کا کہنا تھا، ''اب سے، عراق اور شام میں پی کے کے یا وائی پی جی (پی کے کے سے وابستہ کرد ملیشیا گروپ) 'پیپلز ڈیفنس یونٹس' سے تعلق رکھنے والے تمام بنیادی ڈھانچے، بڑی سہولیات اور توانائی کی سہولیات ہماری سیکورٹی فورسز کے لیے جائز اہداف ہیں۔''

ترک فورسز کی سرحد پار کارروائی
ترکی نے عراق اور شام دونوں میں کئی بار سرحد پار سے حملے کیے ہیں اور اب شام میں اپنی در اندازی کو مزید بڑھانے کی دھمکی بھی دی ہےتصویر: IHA/AP/picture alliance

ان کا مزید کہنا تھا: ''اس دہشت گردانہ حملے پر ہماری مسلح افواج کا ردعمل انتہائی واضح ہو گا اور انہیں (پی کے کے) کو ایسی حرکت کرنے پر افسوس رہے گا۔'' انہوں نے کہا، ''میری تجویز یہ ہے کہ تیسرے فریق ان سہولیات سے دور رہیں۔''

ترکی نے اتوار کے حملے کے چند گھنٹوں کے اندر ہی عراق میں پی کے کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے تھے اور پھر بدھ کو دوبارہ حملہ کر کے عسکریت پسندوں کی ایک بڑی تعداد کو ''بے اثر'' کرنے کا دعوی کیا۔

شام میں کام کرنے والے ترک انٹیلیجنس ایجنٹوں نے بھی مبینہ طور پر اس کرد عسکریت پسند کو بھی ہلاک کر دیا، جس پر گزشتہ سال استنبول میں ہونے والے بم حملے کے پیچھے ہاتھ ہونے کا شبہ تھا۔ اس حملے میں چھ افراد ہلاکت ہوئے تھے۔

شامی کردوں کے مطابق ترکی جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے

فدان نے کہا کہ ترک انٹیلیجنس نے اس بات کا تعین کیا ہے کہ اتوار کے بم حملے میں ملوث ہونے والے دو افراد شام کے راستے سے ملک میں داخل ہوئے تھے۔ ان کے مطابق وہیں ان افراد کو تربیت بھی فراہم کی گئی تھی۔

لیکن امریکہ کی حمایت یافتہ سیریئن ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) کے ایک رکن مظلوم عبادی نے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ حملہ آور ''ہمارے علاقے سے نہیں گزرے تھے۔''

انہوں نے ایکس (ٹوئٹر) پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھا، ''ترکی ہمارے خطے پر اپنے جاری حملوں کو جائز قرار دینے اور ایک نئی فوجی جارحیت شروع کرنے کے بہانے تلاش کر رہا ہے۔''

 ان کا مزید کہنا تھا، ''خطے کے بنیادی ڈھانچے، اقتصادی وسائل اور آبادی والے شہروں کو نشانہ بنانے کا خطرہ ایک جنگی جرم ہے، جس کا ہم پہلے بھی مشاہدہ کر چکے ہیں۔''

پی کے کے کو ترکی، امریکہ اور یورپی یونین ایک دہشت گرد تنظیم سمجھتے ہیں۔یہ تنظیم انقرہ کے خلاف دہائیوں سے بر سرپیکار ہے اور 1984 میں تنازع شروع ہونے کے بعد سے اب تک دسیوں ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

اس حوالے سے ترکی نے عراق اور شام دونوں میں کئی بار سرحد پار سے حملے کیے ہیں اور شام میں اپنی در اندازی کو مزید بڑھانے کی دھمکی بھی دی ہے۔

ص ز/ ج ا (اے پی، اے ایف پی)

دنیا کا سب سے پیچیدہ غار ریسکیو مشن