1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی میں کرد رہنما صلاح الدین دیمیرتاش کو 42 سال قید کی سزا

17 مئی 2024

ترکی میں کردوں کی سیاسی جماعت ایچ ڈی پی کے سابق رہنما صلاح الدین دیمیرتاش کو 2014ء میں کرد اکثریتی شامی قصبے کوبانی میں داعش کے حملے کے بعد ترکی میں فسادات بھڑکانے کے الزام میں بیالیس سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/4fxjQ
ترکی  صلاح الدین دیمیرتاس
ترکی کی ایک عدالت نے جمعرات کو کرد حامی ایچ ڈی پی کے سابق رہنما صلاح الدین دیمیرتاس کے خلاف بیالیس سال قید کی سزا سنائیتصویر: HDP

ترکی کی ایک عدالت نے جمعرات کو کرد حامی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی یا ایچ ڈی پی کے سابق رہنما صلاح الدین دیمیرتاش کے خلاف بیالیس سال قید کی سزا سنائی۔ ان پر سن 2014 میں شامی کرد قصبے کوبانی میں اسلامک اسٹیٹ کے حملے کے بعد ترکی میں ہلاکت خیز مظاہروں کو ہوادینے میں مبینہ کردار ادا کرنے کا الزام ہے۔

ایک اور سرکردہ کرد نواز سیاست داں، فیگن یوسیک داغ کو بھی تیس سال سے زائد قید کی سزا سنائی گئی۔ ایچ ڈی پی کی دیگر سینیئر شخصیات کو بھی مختلف جرائم کے الزام میں سزائیں سنائی گئیں۔ مجموعی طورپر 129افراد کے خلاف الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ان میں قتل سے لے کر ترک ریاست کونقصان پہنچانے تک کے الزامات شامل ہیں۔

کیا ترکی شامی پناہ گزینوں کی غیر قانونی ملک بدری کررہا ہے؟

شامی خانہ جنگی چودھویں سال میں داخل، تشدد میں اضافہ

کم از کم دس مدعاعلیہان کو ان کے خلاف الزامات سے بری کر دیا گیا۔ جن لوگوں کو سزائیں سنائی گئی ہیں ان کی جانب سے فیصلوں کے خلاف اپیل دائر کرنے کی توقع ہے۔

چیف جسٹس نے جیسے ہی اپنا فیصلہ پڑھنا شروع کیا، انقرہ کے مضافات میں واقع جیل کمپلکس کے کمرہ عدالت میں وکلاء دفاع اور مبصرین نے میزیں بجانی شروع کردیں۔ انہوں نے کرد زبان میں، "ایچ ڈی پی کی مزاحمت زندہ باد"، " ایچ ڈی پی زندہ باد" اور "کوبانی کی مزاحمت امر رہے "جیسے نعرے بھی لگائے۔

ترکی: انقرہ میں ’دہشت گردوں‘ کا وزارت داخلہ پر حملہ

دیمیرتاش نومبر 2016 سے دہشت گردی کے متعلق الزامات میں جیل میں ہیں۔ وہ ترکی کی سب سے بااثر سیاسی شخصیات میں سے ایک ہیں۔ دیمیرتاس اور یوسیک داغ ان 18ملزمان میں شامل تھے، جو پہلے ہی سے جیل میں ہیں۔

ترک انتخابات میں ایردوآن کی جیت، ناقدین پر سختی کا خدشہ

سن 2014 میں احتجاج کیوں ہوا تھا؟

سن 2014 میں ترکی کے ہلاکت خیز فسادات کرد حامی رہنماوں کی اپیل کا نتیجہ تھے۔ جو ان کے مطابق شام کے سرحدی شہر کوبانی کا محاصرہ کرنے والے اسلامک اسٹیٹ گروپ کے عسکریت پسندوں کے لیے ترکی کی حمایت کی وجہ سے مایوس ہوگئے تھے۔

اکتوبر 2014 میں تین دن تک جاری رہنے والی جھڑپوں کے نتیجے میں پولیس افسران سمیت 37افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے۔ ایچ ڈی پی نے ترک پولیس کو ان ہلاکتوں کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔

امریکہ کے حمایت یافتہ شامی کرد نواز جنگجو، جنہیں ترکی سرکاری طورپر دہشت گرد قرا ردیتا ہے، نے جنوری 2015 میں جہادیوں کو کوبانی سے نکال باہر کیا تھا۔

سن 2023 میں عدالت میں سماعت کے دوران دیمیرتاش نے اس مقدمے کو "انتقامی" کارروائی قرار دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ" میرے متعلق کوئی ایک بھی ثبوت نہیں ہے۔ یہ سیاسی انتقام کا معاملہ ہے۔ ہمیں قانونی طورپر گرفتار نہیں کیا گیا بلکہ ہم سب سیاسی یرغمال ہیں۔"

انقرہ ایچ ڈی پی پر عسکریت پسند کردستان ورکر پارٹی (پی کے کے) سے تعلقات رکھنے کا الزام لگاتا ہے، جسے ترکی، امریکہ اور یورپی یونین نے دہشت گردگروپ قرار دیتا ہے۔ ایچ ڈی پی دہشت گردی سے کسی بھی طرح کے تعلق کی تردید کرتی ہے۔

اپنے خلاف پابندی عائد کیے جانے کے امکانات کے مدنظر ایچ ڈی پی نے گزشتہ سال خود کو ڈی ای ایم پارٹی کے بینر تلے دوبارہ منظم کیا ہے، جو اس وقت ترکی کی پارلیمان میں تیسری سب سے بڑی پارٹی ہے۔

 ج ا/ ص ز (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)