1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی ميں کرپشن کيس کے تمام مشتبہ افراد رہا، وزير اعظم کا خير مقدم

عاصم سلیم1 مارچ 2014

ترکی کی ايک عدالت نے بد عنوانی کے مقدمے ميں زير حراست تمام پانچ ملزمان کو رہا کرنے کا حکم دے ديا ہے۔ اپوزيشن نے اس پيش رفت کو ملک ميں احتجاجی مظاہروں کا سبب بننے والےکرپشن اسکينڈل پر پردہ ڈالنے کی کوشش قرار ديا۔

https://p.dw.com/p/1BHoa
تصویر: picture alliance/AA

ترک ذرائع ابلاغ کے مطابق استنبول کی ايک عدالت کے اس فيصلے کے تحت بد عنوانی کے مقدمے کے آخری پانچ مشتبہ افراد کو بھی رہا کر ديا گيا ہے۔ جمعے کے روز رہائی پانے والوں ميں سابق وزير داخلہ کے بيٹے بارس گولير، سابق وزير خزانہ کے صاحب زادے کان کگليان اور آذربائيجان سے تعلق رکھنے والے بزنس مين رضا زراب بھی شامل ہيں۔

گولير اور کگليان پر الزام ہے کہ انہوں نے رشوت دينے اور لينے ميں مدد فراہم کی جبکہ زراب پر شبہ ہے کہ انہوں نے ايک ايسا گروہ قائم کيا، جو حکومت کے ’ہلک بينک‘ کے ذريعے بين الاقوامی پابنديوں کے شکار ملک ايران کو سونے کی فروخت کو پوشيدہ رکھنے کے ليے اہلکاروں کو رشوت دينے ميں ملوث تھا۔

Türkei Proteste in Istanbul gegen die Regierung von Erdogan
اس معاملے پر ايردوآن حکومت کے خلاف مظہرے بھی جاری ہیںتصویر: Reuters

قريب دو ہفتے قبل ’ہلک بينک‘ کے سابق سربراہ سليمان ارسلان کو بھی رہا کر ديا گيا تھا، جن پر ايران کو سونے کی فروخت سے متعلق کرپشن، فراڈ اور منی لانڈرنگ کے الزامات ہيں۔ پوليس نے ان کے مکان سے جوتے کے ڈبوں ميں چھپے قريب ساڑھے چار ملين ڈالر برآمد کيے۔

ترکی کے ايک نجی ٹيلی وژن چينل NTV کے مطابق ان مشتبہ افراد کی رہائی کا فيصلہ تمام ضروری شواہد اکھٹے کيے جانے کے بعد کيا گيا ہے۔ تاہم پانچوں ملزمان کے خلاف سفری پابندياں عائد کر دی گئی ہيں اور انہيں بيرون ملک سفر کرنے کی اجازت نہيں ہے۔

اس پيش رفت پر ترک وزير اعظم رجب طيب ايردوآن نے کہا کہ يہ فیصلہ ان کی توقعات کے عین مطابق ہوا ہے اور يہ کہ انصاف ہو چکا ہے۔

اس کے برعکس ملک کی مرکزی اپوزيشن جماعت ری پبلکن پيپلز پارٹی کے رہنما کمال کليشدا اوگلو کا کہنا ہے کہ انہيں عدالتی فيصلے پر کوئی تعجب نہيں۔ ان کا کہنا ہے، ’’ہم پہلے ہی يہ کہہ چکے تھے کہ انہيں چھوڑ ديا جائے گا۔ وہ کرپشن پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہيں۔‘‘

ترکی ميں عوامی احتجاج کا سبب بننے والا بد عنوانی کا يہ معاملہ گزشتہ برس دسمبر ميں منظر عام پر آيا تھا، جب ايردوآن کے کئی قريبی کاروباری و سياسی اتحاديوں کو زير حراست لے ليا گيا تھا۔ اسی تناظر ميں کابينہ کے تين وزراء نے اپنے بيٹوں کی گرفتاری کے بعد اپنے اپنے استعفے دے ديے تھے۔ بعد ازاں ايردوآن کو کابينہ ميں رد و بدل بھی کرنا پڑا تھا جبکہ اسی دوران ملک کے کئی حصوں ميں حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ بھی شروع ہو گيا۔

وزير اعظم رجب طيب ايردوآن نے اپنے سابق اتحادی اور موجودہ سياسی حريف ترک نژاد امريکی شہری فتح اللہ گُلن کے حاميوں پر اس کا الزام عائد کرتے ہوئے گُلن کے حامی مانے جانے والے درجنوں استغاثہ کے وکلاء اور پوليس اہلکاروں کو برطرف کر ديا ہے۔ پھر ابھی پچھلے ہی دنوں حکومت کے انٹرنيٹ اور عدليہ پر اضافی کنٹرول سے متعلق بلوں پر دستخط بھی کيے جا چکے ہيں۔ يہ معاملہ گزشتہ گيارہ سالوں سے چلی آ رہی ايردوآن حکومت کے ليے سب سے بڑا چيلنج ثابت ہو رہا ہے۔

امريکا نے جمعرات کے روز جاری کردہ اپنی سالانہ ہيومن رائٹس رپورٹ ميں ترک عدليہ کو ’سياست کا شکار‘ اور ’ضرورت سے زيادہ بوجھ تلے‘ قرار ديا ہے۔