ترکی: شامی مہاجرین کم اجرت پر کام کرنے پر مجبور
5 دسمبر 2015استنبول میں ایک ہارڈویئر کی دوکان کے مالک، پینتالیس سالہ الطان کا کہنا ہے، ’’یہاں بہت سے شامی مہاجر مزدوری کی تلاش میں ہیں اور مجھے یہ لوگ ترکوں کی نسبت سستے پڑتے ہیں۔‘‘ الطان نے اپنی دوکان پر دو شامیوں کو کام دے رکھا ہے اور وہ انہیں یومیہ 8.70 ڈالر اجرت دیتا ہے جو کہ ترک مزدوروں کے مقابلے میں تقریباﹰ آدھی ہے۔
انقرہ حکومت اب شامی مہاجرین کو ترکی میں کام کرنے کی قانونی اجازت دینے کے منصوبے پر کام کر رہی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق دو لاکھ پچاس ہزار سے زائد شامی باشندے ترکی میں غیر قانونی طور پر کام کر رہے ہیں۔ ترک آجروں کو شامی مہاجرین کی صورت میں سستی لیبر مل رہی ہے اور تارکین وطن کو بھی کام مل رہا ہے۔ لیکن کم اجرت کے عوض زیادہ سے زیادہ کام لیے جانے کے باعث شامی مزدوروں کا استحصال بھی ہو رہا ہے۔
ترکی میں شامی تارکین وطن کو قانونی طور پر مہاجر نہیں بلکہ ’مہمان‘ مانا جاتا ہے۔ غیر قانونی طور پر کام کرنے والے ان شامیوں کے لیے ترکی میں کوئی قانونی تحفظ دستیاب نہیں ہے۔
ترکی میں کسی کو غیر قانونی کام دینے پر فی کس تقریباﹰ تین ہزار ڈالر جرمانہ دینا پڑتا ہے۔ لیکن الطان کہتے ہیں، ’’سب جانتے ہیں کہ شامی مہاجرین کو غیر قانونی طور پر کام دیا جاتا ہے لیکن کوئی بھی اسے روکنا نہیں چاہتا۔ پولیس کو معلوم ہے کہ اگر یہ لوگ کام نہیں کریں گے تو پھر یہ سڑک پر ہوں گے۔‘‘
شامی باشندوں کو قانونی طور پر کام دینے کا معاملہ دو دھاری تلوار کی مانند ہے۔ ایک خدشہ یہ بھی ہے کہ اگر شامی باشندوں کو قانونی طور پر کام کرنے کی اجازت مل گئی تو انہیں بھی ترک قانون کے مطابق مساوی اجرت ادا کرنا پڑے گی جس کے بعد شاید مہاجرین کو کام ملنے میں دشواری پیش آئے۔
شامی باشندوں کو کام کرنے کی قانونی اجازت دینے میں ایک اور رکاوٹ بھی ہے۔ ترک شہریوں کو ایک خدشہ یہ بھی ہے کہ اگر شامی تارکین وطن کو کام کرنے کی اجازت مل گئی تو اس کے بعد ترک شہریوں کی بے روزگاری میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
یورپی یونین نے ترکی کو تین بلین یورو کی مالی معاونت فراہم کی ہے۔ یہ رقم شامی مہاجرین کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لیے استعمال کی جائے گی۔ لیکن اگر شامی باشندوں کے ترک معاشرے میں انضمام پر پیش رفت نہ ہو سکی تو ان میں یورپ کی جانب مہاجرت کے رجحان میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔