1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترقیاتی امور کے جرمن وزیر کابل میں

امجد علی18 نومبر 2014

ترقیاتی امداد کے جرمن وزیر گیرڈ ملّر جرمن حکومت کے پہلے نمائندے کے طور پر اپنے دورہٴ افغانستان کے دوران نو منتخب صدر اشرف غنی سے ملاقات کر رہے ہیں۔ جرمنی دنیا بھر میں سب سے زیادہ ترقیاتی امداد افغانستان کو دیتا ہے۔

https://p.dw.com/p/1DpCx
ترقیاتی امداد کے جرمن وزیر گیرڈ ملّر
ترقیاتی امداد کے جرمن وزیر گیرڈ ملّرتصویر: Presse- und Informationsamt der Bundesregierung

یہ کوئی معمول کا دورہ نہیں ہے۔ صدارتی انتخابات کے بعد مہینوں سے چلے آ رہے تنازعے نے افغانستان کو ایک سنگین سیاسی بحران سے دوچار کر رکھا ہے۔ اور اس صورتِ حال میں اُس وقت بھی کوئی بہتری ہوتی نظر نہیں آ رہی، جب چند ہفتوں کے اندر اندر مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے چھتیس ہزار فوجیوں کی دو تہائی تعداد افغانستان چھوڑ کر چلی جائے گی۔ بہرحال جرمن وزیر برائے ترقیاتی امداد کا کہنا یہ ہے کہ افغانستان کو تنہا نہیں چھوڑا جائے گا۔

اپنے دورے سے پہلے اُنہوں نے کہا تھا:’’لیکن آئندہ برسوں کے لیے ہماری امداد کی کچھ شرائط بھی ہیں اور مَیں اس موضوع پر صدر اور حکومتی نمائندوں کے ساتھ بات کروں گا۔‘‘

کابل سے موصولہ اطلاعات کے مطابق گیرڈ ملّر نے صدر اشرف غنی کے ساتھ ساتھ چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ کے ساتھ بھی ملاقات کی ہے۔ کابل میں برسرِاقتدار آنے والی نئی افغان حکومت کو اقتصادی اور سماجی شعبوں میں بے پناہ چیلنجوں کا سامنا ہے۔ خاص طور پر صحت اور تعلیم کے شعبوں میں کچھ پیشرفت ضرور ہوئی ہے لیکن عمومی طور پر افغانستان کے تین کروڑ عوام کی ایک بڑی اکثریت کے حالات بدستور دگرگوں ہیں۔ عالمی ادارہٴ صحت کے مطابق اس ملک میں اوسط عمر تقریباً ساٹھ برس ہے۔

افغانستان کے دوران نو منتخب صدر اشرف غنی
افغانستان کے دوران نو منتخب صدر اشرف غنیتصویر: picture alliance/AP Photo/Massoud Hossaini

افغانستان میں غیر فوجی شعبے میں تعمیرِ نو کے لیے جرمنی سالانہ 430 ملین یورو فراہم کر رہا ہے تاہم جرمن وزیر گیرڈ ملر کہتے ہیں:’’یہ امداد شرائط کے بغیر نہیں ہے۔ افغان حکومت سے ہم یہ چاہتےہیں کہ وہ بدعنوانی کا انسداد کرے، انسانی حقوق کی پاسداری کرے، مساوی حقوق کے لیے کام کرے اور خواتین کی شرکت کو بھی ممکن بنائے۔ یہ ساری وہ باتیں ہیں، جو مَیں نئی افغان حکومت کے ساتھ کرنا چاہتا ہوں۔‘‘

جرمن وزیر کابل حکومت پر یہ بات بھی واضح کرنا چاہتے ہیں کہ جرمن امداد بتدریج کم بھی ہوتی چلی جائے گی اور ایک وقت آئے گا، جب افغانستان کو اکیلے ہی ساری ذمے داریاں نبھانا ہوں گی۔ افغان قیادت کے ساتھ مذاکرات کے موضوعات کا ذکر کرتے ہوئے جرمن وزیر نے کہا:’’افغان حکومت کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ ہم خاص طور پر اپنے اقتصادی شعبے کی جانب سے سرمایہ کاری کے حوالے سے پیشرفت چاہتے ہیں۔ افغانستان معدنی خزانوں سے مالا مال ایک بڑا اور امیر ملک ہے۔ ان خزانوں کو باہر نکالا جا سکتا ہے تاہم اس کے لیے ضروری قانونی بنیادیں فراہم کرنا ہوں گی۔ تو ترقی کے عمل میں افغان حکومت کو بھی اپنا حصہ ڈالنا ہو گا، ہم مستقل بنیادوں پر یہ ذمے داری نہیں لے سکتے۔‘‘

گیرڈ ملّر سیاسی مذاکرات کے ساتھ ساتھ جرمن امداد سے چلنے والے پیشہ ورانہ تربیت کے ایک منصوبے کا دورہ بھی کریں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ افغانستان میں سرگرم جرمن اور بین الاقوامی امدادی تنظیموں کے نمائندوں کے ساتھ ایک ملاقات بھی جرمن وزیر کے پروگرام میں شامل ہے۔