1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تارکين وطن کے ليے يورپ کے ديہی علاقوں ميں بے پناہ مواقع

18 اپریل 2018

يورپی يونيورسٹی انسٹيٹيوٹ کی ايک تازہ تحقيق کے مطابق يورپ بھر کے ديہی علاقوں سے مقامی لوگ شہروں کی طرف منتقل ہو رہے ہيں اور ايسے ميں ان مقابلتاً کم آبادی والے علاقوں ميں مہاجرين کے ليے بے پناہ مواقع موجود ہيں۔

https://p.dw.com/p/2wGKM
Bacharach, Burg Stahleck (erbaut 12. Jh., 1689 zerstört, im 20. Jh...
تصویر: picture-alliance/akg/Bildarchiv Steffens

ايک طرف مشرق وسطیٰ، افريقہ اور ايشيا سے مہاجرين کی يورپ کی طرف ہجرت کا سلسلہ جاری ہے، تو دوسری جانب يورپ کے ديہی علاقوں سے بڑی تعداد ميں مقامی باشندے شہروں کی طرف نقل مکانی کر رہے ہيں۔ اس سے ایسے ديہی علاقوں کی مجموعی آبادی تو کم ہو ہی رہی ہے ليکن ساتھ ساتھ وہاں معاشی سرگرميوں کے ليے افرادی قوت بھی کم پڑتی جا رہی ہے۔

یورپی يونيورسٹی سے وابستہ ايک محققہ مِشیل نوری کے مطابق يورپ کے ديہی علاقوں ميں مہاجرين کے انضمام کے بہترين مواقع موجود ہيں۔ اس بارے ميں نوری کے مطالعاتی جائزے کے نتائج آبادی سے متعلقہ امور کی ويب سائٹ ’نيو ڈوموس‘ پر حال ہی ميں شائع ہوئے۔ اپنے اس مطالعے ميں نوری نے ديہی علاقوں ميں گھٹتی ہوئی آبادی اور زرعی شعبے ميں غير ملکی مزدوروں کی زیادہ ہوتی ہوئی تعداد کا جائزہ ليا۔

مِشيل نوری کے مطابق زرعی شعبے ميں متعارف کرائی گئی تبديليوں کے نتيجے ميں بہت سے یورپی علاقے نماياں ہو کر سامنے آئے ہیں اور ساتھ ہی ان علاقوں ميں پايا جانے والا سماجی عدم توازن بھی۔ سماجی اور اقتصادی محرکات کے جائزے سے واضح ہوتا ہے کہ ديہی علاقوں ميں رہائش پذير افراد کی تنخواہيں، شہری علاقوں کے باشندوں کے مقابلے ميں اوسطاً چاليس فيصد کم ہيں۔

اس کے علاوہ ديہی علاقوں ميں بنيادی ڈھانچے بھی کمزور ہوتے ہيں اور وہاں دستياب سہوليات کا معيار اور تنوع بھی محدود ہوتے ہيں۔ علاوہ ازيں ايسے علاقوں ميں سماجی اور پيشہ ورانہ سطح پر مواقع کا بھی فقدان ہے۔ يورپی يونيورسٹی انسٹيٹيوٹ کی تازہ تحقيق کے مطابق انہی وجوہات کی بنا پر يورپ بھر کے ديہی علاقے اب مقامی نوجوانوں کے ليے زيادہ پر کشش نہيں ہیں۔

نوری کے بقول يورپ ميں مہاجرين کی آمد سے اس صورتحال ميں تبديلی آئی ہے۔ ديہی علاقوں سے مقامی افراد کی نقل مکانی کے سبب وہاں افرادی قوت کی کمی کو مہاجرين کی وہاں منتقلی سے کچھ حد تک مدد ملی ہے۔ رجسرڈ اور غير رجسٹرڈ غير ملکيوں کی ديہی علاقوں ميں منتقلی نوٹ کی گئی ہے۔ وہ وہاں زرعی شعبے ميں افرادی قوت کی کمی کو پورا بھی کر رہے ہيں اور اب مقامی آبادی کا اہم حصہ بھی بنتے جا رہے ہيں۔ نوری نے بتايا کہ بيشتر علاقوں ميں مہاجرين پيداواری مراحل ميں کليدی کردار ادا کر رہے ہيں۔

اس مطالعے کے نتیجے میں يہ بھی کہا گيا ہے کہ ديہی علاقوں ميں انتظامی اور قانونی معاملات ميں بے ضابطگيوں کی گنجائش بھی بہت ہوتی ہے۔ اسی ليے اس سيکٹر ميں ايسے مہاجرين کو ترجيح دی جاتی ہے، جن کا اندراج نہ ہوا ہو کيونکہ یوں ایسے غير ملکیوں کی خدمات سے کم قیمت پر فائدہ اٹھانا مقابلتاً آسان ہو جاتا ہے۔ نوری کے بقول اس سيکٹر ميں کام کرنے والے متعدد غير ملکی ملازمين ملازمتوں کے قانونی معاہدے نہ ہونے، اپنے حقوق کی پامالی، کم اجرتوں اور کئی ديگر طرح کی شکايات کرتے دکھائی دیتے ہيں۔

ع س /م م، نيوز ايجنسياں