1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تائیوان نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو کیسے روکا؟

12 مارچ 2020

تائیوان نے اپنی ہاں تصدیق شدہ کیسوں کی تعداد 50 سے کم بتائی ہے۔ کچھ بین الاقوامی ماہرین صحت نے اس کی وجہ تائیوان کے حکام کی جانب سے اس کی روک تھام کے لیے فوری اور موثر اقدامات بتائی ہے۔

https://p.dw.com/p/3ZHmW
Großfläche Desinfektion gegen das Corona-Virus in Taiwan
تصویر: Getty Images/Afp/S. Yeh

تائیوان نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو کیسے روکا؟

تائیوان میں کووڈ  19انفیکشن میں مبتلا مریضوں کی تعداد 50 سے کم ہے۔ تائیوان کے جغرافیائی اعتبار سے اس وائرس کے مرکز چینی صوبے ہوُبئی سے قریب ہونے کے باوجود حکام کی طرف سے فوری طور پر کیے جانے والے اقدامات کے نتیجے میں اس بحران کو روکنے میں مدد ملی ہے۔

چین کے شہر ووہان سے ایک نئے مُضر کورونا وائرس کی وبا پھیلنے  کے عمل کو دو ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر چُکا ہے۔ اب تک دنیا بھر کے درجنوں ممالک میں ایک لاکھ سے زیادہ افراد اس بیماری کا شکار ہو چکے ہیں۔ اب بھی تائیوان میں لوگ ماسک پہنے سڑک پر چلتے نظر آرہے ہیں۔ اس کوشش نے تائیون کو کووڈ 19 انفیکشن نے بڑے پیمانے پر محفوظ رکھا ہے جبکہ یہ جزیرہ وائرس کے ایپی سینٹر یا مرکز سے کافی قریب واقع ہے۔

جب جنوری میں یہ وبا پھیلنا شروع ہوئی تھی اُس وقت کچھ ماہرین نے پیش گوئی کی تھی کہ چین سے باہر تائیوان  کی سرزمین پرکورونا وائرس کے سب سے زیادہ  کیسز سامنے آئیں گے۔ اس کے برعکس اب جبکہ چین میں اب تک کووڈ 19 کے 80 ہزار سے زائد کیسز سامنے آ چکے ہیں، تائیوان نے اپنی ہاں تصدیق شدہ کیسوں کی تعداد 50 سے کم بتائی  ہے۔ کچھ بین الاقوامی ماہرین صحت نے اس کی وجہ تائیوان کے حکام کی جانب سے اس کی روک تھام کے لیے فوری اور موثر اقدامات بتائی ہے۔

Schutzmaßnahmen gegen das Corona-Virus in Taiwan
تائیوان میں کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے بروقت اقدامات کیے گئے۔تصویر: Reuters

تائیوان کی تیز رفتار کارروائیاں

امریکا میں اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے پبلک ہیلتھ پالیسی کے ماہر ڈاکٹر جیسن وانگ نے کہا کہ تائیوان نے بحران کے ممکنہ پیمانے کو جلد ہی پہچان لیا تھا اور پھیلنے سے پہلے ہی اس پر قابو پا لیا۔ وانگ نے کہا، ''تائیوان نے سارس وبا کے بعد 2002 ء اور 2003 ء میں نیشنل ہیلتھ کمانڈ سینٹر (NHCC) قائم کیا تھا۔ یہ اگلے بحران کی تیاری تھی‘‘۔ وانگ نے مزید کہا کہ NHCC اعداد و شمار کو مربوط کرتا ہے اور ماہرین کو مل کر کام کرنے کی اجازت دیتا ہے۔

تائیوان کی حکومت نے مین لینڈ چین میں کورونا وائرس کے  کیسز میں اضافے کے فوراً بعد ہی سفری پابندی عائد کردی تھی۔ ہانگ کانگ اور مکاؤ سے آنے والے سیاحوں پر چین میں کورونا وائرس کی وجہ سے تعداد میں اضافے کے فورا بعد ہی سفری پابندی عائد کردی۔ مزید برآں، تائیون کی حکومت نے سرجیکل ماسک  ایکسپورٹ کرنے پر بھی پابندی نافذ کردی تھی۔

وانگ نے کہا کہ صحت عامہ کے قوانین متعارف کرانے سے تائیوان کی حکومت کو وسائل مختص کرنے کا اضافی اختیار بھی مل گیا۔ وانگ کے بقول،''تائیوان کی حکومت نے قومی صحت انشورنس کے اعداد و شمار کو امیگریشن اور کسٹم کے اعداد و شمار کے ساتھ مربوط کیا۔ اس سے فرنٹ لائن طبی عملے کو مشتبہ مریضوں کی سفری تاریخ کی جانچ پڑتال کے بعد ان کے اندر وائرس کی شناخت کے معائنے کی اجازت بھی مل گئی۔‘‘

Schutzmaßnahmen gegen das Corona-Virus in taiwaner Schulen
بچوں کو پوائمری اسکول کی سطح سے ہی وائرس سے بچاؤ کے طریقہ کار کی تربیت فراہم کی گئی۔تصویر: Reuters/F. Hamacher

 

تائیوان میں جدید تحقیق اور ٹکنالوجی کا استعمال

تائیوان کی حکومت نے ایک ایسا پروگرام بھی تیار کیا ہے جس کے تحت تائیوان پہنچنے پر لوگ QR کوڈ اسکین کے ذریعے اپنی ٹریول ہسٹری اور بیماری کے علامات کی اطلاع دے سکتے ہیں۔ اس کے بعد مسافروں کو اُنکی صحت کی موجودہ صورتحال کے بارے میں ایک ٹیکسٹ میسج ملتا ہے۔ اس کے تحت کسٹم افسران کم خطرے والے مسافروں کو چھوڑ سکتے ہیں اور کووڈ 19 کے انفیکشن کے خطرے سے زیادہ دوچار مسافروں پر توجہ مرکوز کر سکتے ہیں۔ پبلک ہیلتھ پالیسی کے ماہر ڈاکٹر جیسن وانگ مزید کہتے ہیں'' تائیوان کی حکومت نئی ٹیکنالوجی کے ساتھ  بہت ساری چیزیں کرنے میں کامیاب رہی ہے، اور ان طریقوں سے وہ لوگوں کی صحیح طور پر چھان بین اور مناسب دیکھ بھال کر سکتے ہیں۔‘‘ تائیوانی حکام کو سرکاری قواعد و ضوابط پر عمل کرنے کے لیے عوام کی رضامندی اور اس بارے میں عوامی شعور نے بھی بہت سہارا دیا ہے۔ عوامی شمولیت کے ساتھ ہی حکام کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا سد باب کرنے میں کامیاب رہے۔

BdT Touristin aus Taiwan mit Mundschutz
تائیوان کی سڑکوں پر ہر شخص ماسک پہنے دکھائی دیتا ہے۔تصویر: picture-alliance/dpa/K.J. Hildenbrand

امریکا کی اوریگون اسٹیٹ یونیورسٹی کے پبلک ہیلتھ پروفیسر ڈاکٹر چنہوئی چی نے کہا، ''بیشتر تائیوانی باشندوں نے سارس کی وبا کے پھیلاؤ کا دور دیکھا اور اُس دوران مشکلات اور رکاوٹ کا سامنا کیا لہذا اُن تجربات کی یادداشتیں ابھی بھی تازہ ہیں۔ اس سے مجموعی طور پر معاشرے کے احساس کو فروغ ملتا ہے۔  عوام جانتے ہیں کہ وہ سب ایک ساتھ اس وبا کا شکار ہیں اور اس وجہ سے وہ حکومت کی طرف سے نافذ اقدامات کی تعمیل پر راضی ہوجاتے ہیں۔‘‘

چی کے مطابق تائیوان نے گزشتہ چند دہائیوں سے اپنی بائیومیڈیکل تحقیقی صلاحیت میں سرمایہ کاری کی ہے اور تحقیقاتی ٹیمیں COVID-19 کے لیے تیزی سے تشخیصی ٹیسٹ کو بڑے پیمانے پر تیار کرنے کے لیے کام کر رہی ہیں۔

گزشتہ اتوار کو ، تائیوان کی اکیڈمیا سنیکا کی ایک تحقیقی ٹیم نے اینٹی باڈیز تیار کیں، جو ان پروٹین کی نشاندہی کر سکتی ہیں جو کورونا وائرس کا سبب بنتے ہیں۔ ان کا مقصد کورونا وائرس کے لیے ایک نیا تیز رفتار ٹیسٹ تیار کرنا ہے جو تشخیص کے لیے ٹائم فریم 20 منٹ تک مختصر کر سکتا ہے۔ ٹیم کے سرکردہ محقق ڈاکٹر یانگ ان سوئی نے 8 مارچ کو کہا کہ ٹیم کے لیے اگلا مرحلہ تائیوان میں اس تیز رفتار ٹیسٹ کٹ کو قابل استعمال بنانے اور مہیا کرنے سے پہلے اس مصنوع کو قانونی شکل دینا ہے۔

Hongkong | Coronavirus | Carrie Lam, Regierungschefin
چین کا دعویٰ ہے کہ اُس نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ پر قابو پا لیا ہے۔تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Ibrahim

چین کے کورونا وائرس کے ردعمل سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟

گرچہ بیجنگ تائیوان کی عالمی ادارہ صحت میں شمولیت کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے، لیکن صحت عامہ کے ماہر وانگ کے مطابق تائیوان دوسرے ممالک کے ساتھ کورونا وائرس پھیلاؤ سے نمٹنے کے لیے اپنے تجربے کو دیگر ممالک کے ساتھ بانٹنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ وانگ نے کہا ،'' تائیوان ٹیلی کانفرنسوں کے ذریعے اس وبا کی روک تھام کی حکمت عملی کو دوسرے ممالک کے ساتھ بانٹ رہا ہے اور ایسے ممالک کی مدد بھی کر رہا ہے جن میں مریضوں سے نمونے لینے کے لیے درکار جدید طبی صلاحیتوں کی کمی ہے۔‘‘

با الفاظ دیگر تائیوان کی حکومت عوامی صحت کے موضوع پر دوسرے ممالک کے ساتھ بات چیت میں مشغول ہے۔

کیا تائیوان کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی روک تھام میں اپنی کامیابی کے ذریعے ڈبلیو ایچ او میں شامل ہونے کی کوشش کر رہا ہے؟ اس بارے میں وانگ کا خیال ہے کہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر تائیوان کی بجائے ڈبلیو ایچ او کو غور کرنا چاہیے۔ وانگ کے بقول'' ڈبلیو ایچ او کو جان لینا چاہیے کہ عالمی وبائی امراض کا مقابلہ کرنے کے لیے تمام اقوام و معاشروں کی شمولیت کلیدی حیثیت رکھتی ہے  اور اگر یہ ادارہ دنیا کے کچھ حصوں کو نظرانداز کررہا ہے تو اس کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔‘‘

ک م/ ع ا / ولیم ژانگ

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں