بین الاقوامی افواج کے امدادی منصوبے، فلاحی تنظیمیں پریشان
17 فروری 2011فلاحی تنظیم آکسفیم کی طرف سے جاری کی گئی ایک رپورٹ میں اس حکمت عملی کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ افغانستان میں جب جرمن فوجی اسکول تعمیر کرتے ہیں اور عراق میں جب امریکی دستے اشیائے خوراک تقسیم کرتے ہیں، تو فوج اور فلاحی تنظیموں کے درمیان فرق انتہائی کم ہو جاتا ہے۔ فلاحی منصوبوں کے لیے فوجی بجٹ میں اضافے کو فلاحی تنظیموں کی طرف سے انتہائی تشویش کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ فلاحی امدادی منصوبوں کا مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ عوام کے لیے حفاظتی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
یہ رپورٹ جاری کرنے والے مائیک لیوِس کہتے ہیں، ’’افغانستان میں کام کرنے والے اداروں اور ماہرین کے مطابق فوج کی طرف سے تعمیر کیے گئے اسکولوں اور ہسپتالوں پر عسکریت پسندوں کے حملوں کا زیادہ خدشہ ہوتا ہے، بہ نسبت ان اسکولوں اور ہسپتالوں کے جو فلاحی تنظیموں کی طرف سے تعمیر کئے جاتے ہیں۔‘‘
اس رپورٹ کے مطابق ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ فلاحی منصوبوں میں اسٹریٹیجک اہمیت کے حامل ممالک کو واضح ترجیح دی جاتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق جن ممالک میں قدرتی وسائل زیادہ پائے جاتے ہیں، وہاں ترقیاتی منصوبے بھی بڑی تعداد میں شروع کیے جاتے ہیں۔ اس رپورٹ میں ان تمام ڈونر ممالک کو نشانہ بنایا گیا ہے، جو ذاتی مفادات کی خاطر ضرورت مند ممالک کی بجائے دوسرے ممالک کو ترجیح دیتے ہیں۔
مائیک لیوِس کے مطابق فلاحی منصوبوں اور سرگرمیوں کے ذریعے فوجی مقاصد کا حصول ناقابل قبول ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’اقوام متحدہ کی ہدایات واضح طور پر موجود ہیں۔ بحران زدہ علاقوں میں فوج کے کردار کو مسائل کے حل کے لیے آخری موقع تصور کیا جاتا ہے اور وہ بھی اس صورت میں جب فلاحی امدادی تنظیمیں اپنا کام کرنے سے قاصر ہوں۔ فوج کا کام انسانی بنیادوں پر امداد کے لیے سکیورٹی کی صورتحال میں بہتری لانا ہے نہ کہ خود فلاحی کام کرنا۔ یہ ہدایات سکیورٹی کی صورتحال کی وجہ سے نہیں ہیں بلکہ ان کا مقصد سول اور فوجی دستوں کے درمیان مل کر کام کرنے کی صلاحیت کو بہتر بنانا ہے۔‘‘
مائیک لیوِس کے مطابق فوج کی طرف سے شروع کیے گئے فلاحی منصوبے عارضی ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق عراق میں کئی ایسے اسکول اور ہسپتال بجٹ نہ ہونے کی وجہ سے خالی پڑے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ فوج کی ترجیحات بھی تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ 2002ء میں جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق عالمی ترقیاتی امداد کا ایک تہائی حصہ صرف تین ممالک عراق، افغانستان اور پاکستان میں خرچ کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق یہ امداد 48 بہت کمزور ممالک کے لیے استعمال کی جا سکتی تھی۔ امریکہ کے ساتھ ساتھ کینیڈا نے بھی کم اسٹریٹیجک اہمیت والے ممالک کے لیے مختص امدادی رقوم کم کر دی ہیں۔
رپورٹ: امتیاز احمد
ادارت: مقبول ملک