1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بیرون ملک پاکستانیوں کی وطن میں تنہا بیویوں کا المیہ

7 جولائی 2021

متعدد پاکستانی نژاد غیرملکی شہری اپنی ہم وطن خواتین سے شادی کرتے ہیں اور ان خواتین کو امید بندھ جاتی ہے کہ وہ بیرون ملک جا کر اپنے گھر کی مالی مدد کر سکیں گی لیکن بعد میں صورتحال یکسر مختلف ہو جاتی ہے۔

https://p.dw.com/p/3wAjx
Braut in Pakistan
تصویر: ARIF ALI/AFP/Getty Images

شادی کے بعد یہ مرد واپس برطانیہ چلے جاتے ہیں لیکن ان کی بیویاں پاکستان میں تنہا ہی رہ جاتی ہیں۔ یوں ان خواتین کے منصوبے اور روشن مستقبل کے خواب خاک میں مل جاتے ہیں۔

ثنا حفیظ بھی ایسی ہی خواتین میں سے ایک ہیں، جن کی منگنی ان کے کزن کے ساتھ کر دی گئی تھی۔ پاکستانی زیر انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والی اٹھائیس سالہ ثنا دسویں جماعت کی طالبہ تھیں، جب ان کا رشتہ پکا ہوا تھا۔

اگرچہ ثنا اپنی تعلم مکمل کرنے کے بعد سول سروسز میں جانا چاہتی تھیں لیکن  شادی کے خیال سے ہی انہوں نے اپنے تمام تر منصوبہ جات کو ترک کر دیا، کیونکہ ان کے خیال میں اس طرح ان کی مالی حالت زیادہ بہتر ہو جانا تھی۔

لیکن حقیقت کچھ تلخ نکلی۔ ثنا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''مجھے حیرت ہوئی کہ میرے منگیتر اور گھر والوں نے کہا کہ میں بارہویں کے بعد تعلیم ترک کر دوں۔‘‘ پانچ سال کی منگنی کے بعد سن دو ہزار اٹھارہ میں ان کی شادی ہوئی۔ شادی کے ایک ہفتے بعد ہی ثنا کا شوہر برطانیہ چلا گیا اور اسے خواب دکھایا گیا کہ جلد ہی اسے بھی برطانیہ بلا لیا جائے گا۔

ثناء حفیظ کی طرح ایسی بہت سی خواتین ہیں، جن کی شادی پاکستانی نژاد برطانوی مردوں سے اس امید پر ہوئی کہ وہ اپنے خاندان کی مالی مدد کر سکیں گی۔ لیکن حقوق نسواں کی کارکنوں اور وکلاء کے مطابق ایسی بہت سی شادیاں پریشان کن صورتحال اختیار کر لیتی ہیں۔ ثناء حفیظ میرپور خاص کی رہائشی ہیں اور وہاں کے کافی خاندان برطانیہ میں آباد ہیں۔

امید مایوسی میں بدل جاتی ہے

ثناء حفیظ مزید بتاتی ہیں، ''ایک سال تک ہماری شادی رہی اور ہم فون پر بات کیا کرتے تھے۔‘‘ لیکن ان کے منگیتر کا رویہ سن دو ہزار انیس میں تبدیل ہونا شروع ہوا۔ ثناء کا بے بسی کی حالت میں کہنا تھا، ''جب میں نے اصرار کیا کہ میں برطانیہ آنا چاہتی ہوں تو اس نے لڑائی جھگڑا اور مجھے بے عزت کرنا شروع کر دیا اور پھر رواں برس مئی میں اس نے طلاق کی درخواست دائر کر دی۔‘‘

ثناء اس صورتحال کے بارے میں بتاتی ہیں، ''یہ میرے اور میرے اہلخانہ کے لیے ایک بم دھماکے سے کم نہیں تھا۔ اس نے میری زندگی کے آٹھ برس ضائع کیے ہیں۔‘‘ ثناء کے والدین نے ادھار لے کر شادی دھوم دھام سے کی تھی اور انہیں امید تھی کہ لڑکی برطانیہ جانے کے بعد یہ قرض خود ہی اتار دے گی۔ ثناء کا مزید کہنا تھا، ''میں اپنے لیے کوئی نوکری تلاش کر سکتی تھی یا مزید تعلیم بھی حاصل کر سکتی تھی۔‘‘

اسی طرح کے 'ہزاروں کیس‘

خواتین کے حقوق کی وکیل غزالہ حیدر لودھی کے مطابق ثناء حفیظ کا معاملہ کوئی غیر معمولی نہیں ہے۔ وہ کہتی ہیں، ''نوے کی دہائی سے میں ایسے ہزاروں کیسوں کے بارے میں سن چکی ہوں۔‘‘ ان کے مطابق پاکستان کا معاشرہ قدامت پسند ہے اور لوگ ایسی کہانیاں چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔

وکیل افضل احمد بھی ایسی کئی کہانیوں سے واقف ہیں۔ وہ کشمیر کے علاقے بھمبر کے ایک مرد کی کہانی سناتے ہیں، جو ایک عرصے سے برطانیہ میں مقیم ہیں۔ اس شخص نے سات سال قبل اپنی کزن صدف سے شادی کی تھی۔ وہ کچھ سال اس کے ساتھ رہا اور ایک لڑکے کی پیدائش کے بعد اسے چھوڑ دیا۔ صدف پاکستان میں ہی ہے لیکن برطانیہ میں مقیم اس شخص نے اپنے بیٹے کی حوالگی کے لیے کیس دائر کر دیا ہے۔

غربت اہم وجہ ہے

سردار ابرار آزاد میرپور کے ایک ایکٹیویسٹ ہیں۔ ان کے ایک دوست کی بہن کی شادی بھی ایک پاکستانی نژاد برطانوی شہری سے ہوئی تھی لیکن اس لڑکی کو بھی طلاق دے دی گئی۔ سردار ابرار کے مطابق یہ غربت ہے، جس کے وجہ سے لوگ اپنی بیٹیوں کی شادی بغیر تحقیق کیے بیرون ملک مقیم افراد سے کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ ان کے مطابق لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی بیٹیاں یوکے یا دیگر بیرونی ممالک میں شفٹ ہو جائیں اور وہ دولہے کے کردار کو بالکل ہی نظرانداز کر دیتے ہیں۔

شادیاں بچوں کی مرضی کے بغیر

پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے سابق وزیر اعظم سردار عتیق احمد خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میرے خیال میں والدین کو بھی اپنے ان بیٹوں اور بیٹیوں کی رضامندی لینے کی ضرورت ہے، جو مکمل طور پر مختلف سماجی و معاشی حالات کے تحت یوکے میں پیدا ہوئے اور  وہاں ہی ان کی پرورش ہوئی۔‘‘ ان کے خیال میں بہت سے والدین اپنی اولاد کی رضامندی حاصل کیے بغیر ہی ایسی شادیاں طے کر دیتے ہیں۔

 غزالہ حیدر لودھی کے مطابق میرپور میں پاکستانی نژاد برطانوی شہریوں کی شادیاں دن بدن بدنام ہو رہی ہیں۔ لودھی کے مطابق بیرون ملک مقیم ایسے مردوں کی نصف تعداد تو پہلے ہی شادی شدہ ہوتی ہے، ''ایسے زیادہ تر مردوں کی عمریں بھی چالیس سے ساٹھ کے درمیان ہوتی ہیں اور وہ دوسری شادی کے لیے پاکستان کا رخ کرتے ہیں۔‘‘

لودھی مزید کہتی ہیں، ''وہ جانتے ہیں کہ ان کے بیشتر متاثرین غریب ہیں اور ان کے خلاف کچھ نہیں کر سکتے۔ تو وہ یہاں شادی کرتے ہیں، کچھ مہینے یا سال خاتون کے ساتھ گزارتے ہیں، کچھ کیسز میں تو وہ بچوں کو ساتھ لے جاتے ہیں ورنہ زیادہ تر وہ بیوی بچوں دونوں کو ہی یہاں تنہا چھوڑ جاتے ہیں۔ اس کو دھوکا دہی اور ہوس کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے؟‘‘

سردار عتیق احمد کا خیال ہے کہ معاشرے کو ایسی شادیوں کو روکنے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے،''حکومتی سطح پر کوششیں کی جاسکتی ہیں ، لیکن اس رجحان کو روکنے کے لیے سول سوسائٹی کو شعور بیدار کرنا ہوگا۔‘‘

ایس ستار خان ( ا ا / ع ا)

نہ ہم یہاں کی رہیں نہ وہاں کی، کشمیر میں پاکستانی دلہنیں