بھٹ شاہ کے کتے: پطرس بخاری کے سوال کا جواب
6 مئی 2021
کتوں کے موضوع پر بہت سے لکھنے والوں نے طبع آزمائی کی ہو گی لیکن پطرس بخاری نے اپنے طنزیہ مضمون 'کتے‘ میں جتنے مختلف پہلوؤں کو اپنے انتہائی منفرد انداز میں اجاگر کیا اُس کی مثال نہیں ملتی۔ پطرس نے اپنے اس مضمون کا آغاز ہی ایک سوال سے کیا تھا۔ جس کا جواب بھٹ شاہ کے کُتے دے رہے ہیں۔
بھٹ شاہ کے آوارہ کتوں کا احتجاج
واٹس ایپ پر شیئر کی گئی جس ویڈیو کلپ نے مجھے یہ مضمون لکھنے پر مجبور کیا اُس میں شاہ عبداللطیف بھٹائی کے شہر بھٹ شاہ کی ٹنڈو آدم روڈ دکھائی گئی ہے، اسے سڑک تو نہیں کہا جا سکتا کیونکہ یہ ٹوٹا پھوٹا اور ایک ایسا راستہ ہے، جس پر جا بجا کچرے کے ڈھیر نظر آ رہے ہیں اور یہاں پر قطار میں بیٹھے ہوئے درجنوں کُتے بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان کا لاغر پن بتاتا ہے کہ ان کی بھوک کا کیا عالم ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ اس علاقے سے گزرنے والا کوئی بھی انسان ان کے حملے سے محفوظ نہیں۔ اس علاقے کے رہائشیوں کے لیے یہ کتے ملک الموت سے کم نہیں۔ بھٹ شاہ کی انتظامیہ نے اس سنگین مسئلے کے سلسلے میں کورٹ کے احکامات کو سرے سے نظر انداز کرتے ہوئے اس سے چشم پوشی کی ہوئی ہے۔
روٹی کپڑا اور مکان
دلچسپ بات یہ کہ سندھ میں مسلسل گزشتہ 13 سالوں سے ایک ایسی سیاسی پارٹی اقتدار میں ہے جس کا بنیادی نعرہ ہی 'روٹی، کپڑا اور مکان‘ رہا ہے۔ اس کے باوجود سندھ کے بیشتر علاقوں میں نہ تو تمام انسانوں کو روٹی میسر ہے، نہ ہی پسماندہ علاقے کے غریب ترین خاندانوں کے بچوں کے جسموں پر مناسب لباس اور پیروں میں چپلیں نظر آتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ آسائشوں و سہولیات کا حق تو یہاں صرف اور صرف وڈیروں، جاگیرداروں اور سیاستدانوں کے پاس ہے۔ عام شہریوں کی ایک کثیر تعداد کچے مکانوں یا جھونپڑوں میں زندگی بسر کر رہی ہے۔ اندازہ کیجیے کہ جب انسانوں کا یہ حال ہے تو کُتوں کا کیا ہو گا۔ وہ آخر زندہ رہنے کے لیے اپنی خوراک کا کوئی تو بندوبست کریں گے۔ چنانچہ انہوں نے انسانوں کو اپنی خوراک بنانے میں ہی اپنی عافیت جانی۔
ماضی میں سندھ ایک پُر امن خطہ رہا ہے اور یہاں بڑی بڑی برگزیدہ ہستیاں جیسے کہ لال شہباز قلندر، عبداللہ شاہ غازی یسے صوفیا اور شاہ عبداللطیف بھٹائی، سچل سرمست اور شاہ عبدلکریم جیسے صوفی شعراء جن کی مخلصانہ، بے غرض کاوشوں کی وجہ سے اس علاقے میں ہم آہنگی کی فضا، باہمی افہام و تفہیم اور بلا تفریق و امتیاز تمام انسانوں کا آپس میں دوستانہ تعلق رہا کرتا تھا۔ بد قسمتی سے گزشتہ تین یا چار دہائیوں سے یہ سرزمین گوناگوں انتشار، تشدد، فسادات اور ہنگاموں کی آگ میں جل رہی ہے۔
جب جنگی ساز و سامان کھلونے بن جائیں
انسانوں کا کُتوں سے بدلا
پاکستانی معاشرے میں بدلا لینے کا رواج بھی بہت عام ہے۔ انسانوں کا ایک دوسرے سے ہر چھوٹی بڑی بات پر بدلا لینا تو چلیں سمجھ میں آتا ہے، کیونکہ جس ملک میں قانون پر عمل درآمد وہ امر ہے, جس پر توجہ دینا نہ کسی کی اخلاقی ذمہ داری ہے نہ ہی ارباب اختیار کی ترجیحات، تو لوگ معاملات خود ہی نمٹا لیتے ہیں۔ کسی کو اذیت دے کر، کسی کی جان لے کر۔ جرم ضعیفی کی سزا تو مرگ مفاجات ہی ہے نا۔ اب ہوا یہ کہ انسانوں سے بدلا لیتے لیتے لوگوں نے جانوروں سے بھی بدلا لینا شروع کر دیا ہے۔ ایک مثال پیش ہے، چند روز قبل سوات کے علاقے مینگورہ میں مقامی پولیس کی کارروائی میں ایک ایسا شخص پکڑا گیا جو کتوں کے گلے پر چھری چلا کر ان کے گوشت کا قیمہ مینگورہ کے قصائیوں کو فراہم کرتا تھا جسے وہ بیچا کرتے تھے۔ پکڑے جانے پر ملزم نے رمضان کے بابرکت مہینے میں 12 کتوں کو ہلاک کرنے کا اعتراف کیا۔ اب سوال یہ ہے کہ اُس نے ایسا کیوں کیا؟ ہو سکتا ہے کہ اُسے ان کتوں پر غصہ ہو، جنہوں نے بھٹ شاہ اور آس پاس کے علاقوں کے رہائشیوں کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ یہ آوارہ کتے آئے دن چھوٹے چھوٹے بچوں سے لے کر ہر عمر کے باشندوں پر گھات لگا کر حملے کرتے اور انہیں چبا جاتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اس شخص نے سوچا ہو کہ کتوں کو مارو اور ان کا قیمہ بنا دو اور پھر انسانوں کو پیش کرو تاکہ وہ اس سے مزے مزے کے پکوان تیار کریں۔ یعنی کتوں سے بدلا بھی لے لیا اور اپنی برادری کو رمضان کے ماہ میں اپنی خدمات بھی پیش کر دیں۔
صلاح الدین نہیں، انسانیت نے دم توڑ دیا
پطرس کے سوال کا جواب
پطرس بخاری نے اپنے مضمون 'کتے‘ میں یہ سوال اُٹھایا تھا کہ 'آخر کُتوں کا فائدہ کیا ہے؟ لیجیے کتنے فوائد تو ہم نے اس مضمون میں ہی بیان کر دیے۔ کُتے معاشرے سے غربت زدہ اور پسماندہ انسانوں کا خاتمہ کر رہے ہیں۔ وہ کام جس کا بوجھ حکمرانوں کے کمزور کاندھے نہیں اُٹھا سکتے وہ کتے انجام دے رہے ہیں۔ گوشت خور افراد خاص طور سے رمضان کے مہینے میں مہنگائی کے بوجھ سے ناتواں نظر آ رہے ہیں، ایسے میں انہیں سستا قیمہ مل رہا ہے، اس سے نیک کیا کام ہو سکتا ہے۔ پھر یہ کہ بہت سے علاقوں میں تو کتوں نے سکیورٹی کا چارج بھی سنھبال لیا ہے اور اب کورونا کے دور میں وہ بھٹ شاہ کی سڑکوں پر کسی کو لاک ڈاؤن قوانین توڑنے کا موقع نہیں دے رہے۔ باہر نکلنے والے انسانوں پر حملہ کیا اور ہو سکا تو انہیں چیر پھاڑ کر ٹھکانے لگا دیا۔ بھٹ شاہ کا ایک ہسپتال جو کورونا کے مریضوں کا بوجھ اُٹھانے سے قاصر ہے، یہ کتے مریضوں اور ان کے اہل خانہ کو اُس ہسپتال تک پہنچنے ہی نہیں دیتے۔ راستے میں ایسا شور بپا کرتے ہیں کہ لوگ ہسپتال پہنچنے کا ارادہ ہی ملتوی کر دیتے ہیں۔
اب ذرا سوچیے کہ شاہ عبداللطیف بھٹائی کے مزار پر حاضری دینے والے اور ایسے بے گھر افراد جنہیں اس جگہ پڑاؤ ڈالنے کا موقع فراہم ہے، اگر ان کا دارالامان بھی ان کتوں کی وجہ سے دارالحرب بن گیا تو یہ کہاں جائیں گے؟ بھٹ شاہ کے آوارہ کُتوں کی سرگرمیاں کم از کم معاشرے کے چند افراد کے ضمیر کو تو جھنجھوڑنے کا سبب بن رہی ہیں۔ ان کتوں کا احتجاج یہ ہے کہ اگر کسی معاشرے میں انسان کو انسان کا شکار بنایا جا سکتا ہے اور ایک انسان دوسرے انسان کو اپنی لالچ، حرص و ہوس اور طاقت کی بھینٹ چڑھانے کو اپنا حق سمجھ سکتا ہے تو کُتے کیوں اس حق سے محروم رہیں؟
بھٹ شاہ کے گداگروں کو عرفی شیرازی کا پیغام
آواز سگاں کم نہ کند رزق گدارا
کشور مصطفیٰ