1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

'بھلایا جا رہا ہے‘: صرف دن منانا ہی کافی نہیں

11 مارچ 2020

نسل پرستانہ حملوں میں اپنے پیاروں کو کھو دینے والوں کا کہنا ہے کہ جرمن حکومت اور ریاست ایسے ہلاک شدگان کے لواحقین سے ہمدردی کا اظہار کم ہی کرتی ہیں اور یورپ میں ایسے متاثرین کے لیے صرف یادگاری دن منانا ہی کافی نہیں ہے۔

https://p.dw.com/p/3ZDro
تصویر: J. Große/imago images

اکیس اگست 1980ء کو غیر ملکیوں سے نفرت کرنے والے تین دہشت گردوں نے ہمیبرگ میں قائم مہاجرین کے ایک مرکز کے ایک کمرے میں کھڑکی کے ذریعے آتش گیر مادہ پھینکا تھا۔ اس کمرے میں ویتنام کے دو شہری اٹھارہ سالہ دوآن لان اور نگوین چاؤ سو رہے تھے۔ اس واقعے میں یہ دونوں شدید زخمی ہوئے اور چند دن بعد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے تھے۔ مہاجرین کے اس مرکز کی دیوار پر ان نسل پرستوں نے لکھ دیا تھا، ''غیر ملکیو! نکل جاؤ۔‘‘

Deutschland Berlin 2019 | Jahrestag Anschlag Breitscheidplatz
تصویر: picture-alliance/dpa/C. Soeder

دوآن لان کی والدہ آج بھی اپنے بیٹے کی موت کو یاد کرتے ہوئے افسردہ ہو جاتی ہیں۔ انہوں نے جرمن جریدے دی سائٹ سے بات کرتے ہوئے کہا، ''ایسا لگتا ہے کہ کسی کو کوئی فکر ہی نہیں ہے۔‘‘

انیس فروری 2020ء کوایک تینتالیس سالہ شخص نے ہاناؤ شہر میں فائرنگ کرتے ہوئے نو افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس واقعے کو بھی غیر ملکیوں سے نفرت کا نتیجہ قرار دیا گیا تھا۔ اس نسل پرستانہ حملے کی وجہ سے پورا جرمنی سکتے میں چلا گیا تھا۔ ہلاک شدگان اور متاثرین کے لیے منعقد کی جانے والی مرکزی تقریب میں جرمن صدر فرانک والٹر شٹائن مائر اور چانسلر انگیلا میرکل نے بھی شرکت کی تھی۔

روبرٹ ایرکان اس طرح کے جرائم سے متاثرہ افراد کی مشاورت کرتے ہیں۔ ان کے بقول، ''ان افراد کے اہل خانہ نے بتایا کہ انہیں اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے سے ڈر لگتا ہے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ سیاستدان کوئی بھی دعویٰ یا وعدہ کریں، جرمنی میں خوف کی فضا مسلسل موجود ہے۔

یادگاروں کی توڑ پھوڑ

جرمنی خاص طور پر برلن میں نازی دور میں ظلم و ستم کا نشانہ بننے والوں کی کئی یادگاریں قائم ہیں۔ مثال کے طور پر ہزاروں افراد برلن کے ہولو کاسٹ میوزیم اور دہشت گردی کا نشانہ بننے والوں کا میوزیم دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔ تاہم جرمن معاشرے میں حالیہ دنوں کے دوران ہوئے نسل پرستانہ حملوں کا نشانہ بننے والوں کو اس طرح یاد رکھنے کا فی الحال کوئی رواج نہیں پایا جاتا۔ ان افراد کے لواحقین جب بھی اپنے پیاروں کے لیے کسی یادگار کی تعمیر کا مطالبہ کرتے ہیں، تو ان کی سنی ان سنی کر دی جاتی ہے۔

اس کے علاوہ پہلے سے موجود یادگاروں کو نقصان پہنچانے اور ان کی توڑ پھوڑ کے واقعات بھی رونما ہو چکے ہیں۔ کچھ پر تو نازیوں کا نشان سواستیکا بھی بنایا گیا۔ مثال کے طور پر مشرقی جرمن شہر سوِکّاؤ میں نازی جرمن دور میں شدت پسندوں کا نشانہ بننے والے پہلے شخص اینور سمسیک کی یاد میں شاہ بلوط یا اوک کا ایک درخت لگایا گیا تھا، جسے کسی نے کاٹ دیا۔ شبہ ہے کہ اس کے پیچھے نئے نازیوں کا ہاتھ تھا۔

نفرت اور تشدد میں اضافہ

بدھ گیارہ مارچ کو یورپ میں دہشت گردی کا شکار بننے والوں کا یادگاری دن منایا جا رہا ہے۔ اس موقع پر جرمن صدر فرانک والٹر شٹائن مائر نے سوِکّاؤ شہر کا دورہ کرتے ہوئے اس تقریب میں شرکت کی، جس میں شاہ بلوط کا نیا درخت لگایا گیا۔ بتایا گیا ہے کہ ایسے بہت سے مقامی سیاستدان ہیں، جنہیں غیر ملکیوں کی حمایت کرنے اور نسل پرستی کی مخالفت کی وجہ سے دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔

اگر ہم جرمنی میں بھی محفوظ نہیں تو کہاں ہوں گے؟

 

ع ا / م م (ہنس فائفر)