1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یوم جمہوریہ کی تقریب میں پانچ سربراہان کو بلانے کا منصوبہ

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو، نئی دہلی
13 دسمبر 2021

پانچوں وسطی ایشیائی ریاستیں طالبان کے زیر قیادت افغانستان کے لیے کلیدی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان میں سے تین کی سرحد افغانستان سے ملتی ہے۔ بھارت افغانستان پر ایک سربراہی کانفرنس بھی کرنا چاہتا ہے۔

https://p.dw.com/p/44Bjg
Russland | Indischer Außenminister Subrahmanyam Jaishankar
تصویر: Russian Foreign Ministry/AFP

بھارت اس بار جنوری میں اپنے یوم جمہوریہ کی تقریب کے موقع پر ایک نہیں بلکہ پانچ سربراہان مملکت کی مہمان نوازی کرنے کی پر زور کوشش میں لگا ہے۔ اس کے لیے اس نے پانچ وسطی ایشیائی ممالک سے رابطے شروع کیے ہیں، جن میں سے تین افغانستان کے پڑوسی ممالک ہیں۔

بھارت ہر برس 26 جنوری کو یوم جمہوریہ کی تقریب مناتا ہے اور اس میں شرکت کے لیے وہ کسی بیرونی ملک کے ایک سربراہ مملکت کو دعوت دیتا ہے۔ روایتی طور پر کوئی نہ کوئی سربراہ مملکت اس تقریب کا مہمان خصوصی ہوتا ہے تاہم اس بار ایک کی بجائے پانچ سربراہان مملکت کو ایک ساتھ جمع کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔

کن سربراہان کو دہلی آنے کی دعوت دی جا رہی ہے؟

جن ممالک کے صدور کو اس بار ایک ساتھ یوم جمہوریہ کی تقریب میں آنے کی دعوت دی جا رہی ہے اس میں قزاقستان ، ازبکستان، تاجکستان، ترکمنستان، اور کرغزستان کا نام سر فہرست ہے۔ ان میں سے تین ممالک، ازبکستان، تاجکستان اور ترکمانستان کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں۔  

بھارت کے ایک معروف اخبار انڈین ایکسپریس نے حکومتی عہدیداروں کے حوالے سے خبر دی ہے کہ اس سلسلے میں پانچوں ممالک سے رسمی بات چیت شروع کی جا چکی ہے اور عنقریب بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر ان ممالک کے وزراء خارجہ کے ساتھ  بذات خود بات چيت کرنے والے ہیں۔

اگر بھارت اپنی اس کوشش میں کامیاب ہو گیا تو اس بار قزاقستان کے صدر قاسم  جومارت توکایوف، ازبکستان کے شوکت مرزیویف، تاجکستان کے امام علی رحمان، ترکمنستان کے گربنگ علی بردی محمدوف اور کرغزستان کے صدر جباروف جنوری میں دہلی آئیں گے۔

مقصد کیا ہے؟

اطلاعات کے مطابق بھارت علاقے میں اپنی طاقت اور اتحاد کا مظاہرہ کرنے کے لیے پہلے بنگلہ دیش، میانمار، سری لنکا، تھائی لینڈ، نیپال اور بھوٹان جیسے مشرقی ایشیائی ممالک کے سربراہان کو دعوت دی تھی تاہم اس کی یہ کوشش کامیاب نہیں ہو پائی اس لیے اس نے وسط ایشیائی ممالک سے بات چیت شروع کی ہے۔

پاک بھارت کشيدگی کی مختصر تاريخ

وسطی ایشیا کے یہ پانچ ممالک طالبان کے زیر اقتدار افغانستان کی صورت حال میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں اور نئی دہلی اس حوالے سے گزشتہ چند مہینوں سے ان کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے۔

حال ہی میں بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال کی میزبانی میں افغانستان کی سکیورٹی پر ہونے والے اجلاس میں شرکت کے لیے ان تمام ممالک کے نمائندے دہلی آئے تھے۔ اس وقت ان سب نے افغانستان کی موجودہ صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔

ان وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ روابط مختلف وجوہات کی بنا پر اب پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہو گئے ہیں۔ افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد سے خطے میں بڑھتا ہوا چین کا اثر و رسوخ، توانائی کی ضروریات  اور دیگر تجارتی و ثقافتی روابط  کے امکانات کے حوالے سے سکیورٹی تعاون کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔

بھارتی حکومت کی نظر میں یوم جمہوریہ کی تقریب میں مہمان خصوصی بننے کی دعوت علامتی طور پر اہمیت کی حامل ہے۔ طالبان کے آنے کے بعد افغانستان میں بھارتی پوزیشن کافی کمزور ہوئی ہے اور اس کی کوشش ہے کہ پڑوسی ممالک کی مدد سے گرفت کو مستحکم کیا جائے۔ ان رہنماؤں کی آمد سے وہ افغانستان پر علاقائی ممالک کی سربراہی کانفرنس کرنے کا بھی ارادہ رکھتا ہے۔ 

بھارت نے پہلی بار وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنے کا سلسلہ پچھلی دہائی میں شروع کیا تھا۔ تاہم اس کو تقویت اس وقت ملی جب وزیر اعظم نریندر مودی نے جولائی 2015ء میں ان پانچوں ممالک کا دورہ کیا تھا۔

سن 1990 کی دہائی میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد ان جمہوری ریاستوں کا قیام عمل میں آنے کے بعد مودی ان ریاستوں کا سفر کرنے والے پہلے بھارتی وزیر اعظم تھے۔ سابق وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے ان ریاستوں کا دورہ اس وقت کیا تھا جب یہ سوویت یونین کا حصہ تھیں۔

پاک بھارت تنازعہ: مسائل کیا ہيں اور ان کا حل کيوں ضروری ہے؟

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں