1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: گھریلو تشدد، گزشتہ دس برس کا ریکارڈ ٹوٹ گیا

12 فروری 2021

جب محکمہ پولیس کا کوئی معمولی سپاہی نہیں بلکہ ڈائریکٹر جنرل کے درجہ کا ایک افسر ہی اپنی ادھیڑ عمر بیوی کو مار پیٹ رہا ہو تو اس ملک اور اس معاشرے میں عورت اپنے گھر میں کتنی محفوظ ہو گی؟

https://p.dw.com/p/3pG1P
Khadija Siddiqui
تصویر: Privat

یوں تو بھارتی معاشرے میں گھریلو تشدد یا عورتوں کے ساتھ مار پیٹ ہونے کا معاملہ ہمیشہ سے ہی ایک سنگین مسئلہ رہا ہے۔ تاہم یہ صورت حال کووڈ انیس کی عالمی وباء کی وجہ سے لگائے گئے لاک ڈاؤ ن میں مزید سنگین شکل اختیار کر گئی تھی اور اس عرصے میں گھریلو تشدد کے واقعات میں اضافے کی شرح نے پچھلے دس سال کا ریکارڈ توڑ دیا۔

لاک ڈاؤن نافذ کرتے وقت یہ نعرہ دیا گیا تھا کہ ”گھر میں رہو، محفوظ رہو"۔ اس نعرے نے یہ سوال کھڑا کیا کہ بھارتی گھر کتنے محفوظ ہیں؟ گزشتہ سال لاک ڈاؤن کے چار مرحلوں کے دوران گھریلو تشدد کے حوالے سے، جو جائزے منظر عام پر آئے ہیں، وہ ایک خطرناک رجحان کی غمازی کرتے ہیں۔

 مارچ تا ستمبر2020 کے درمیان نیشنل کمیشن فار ویمن  میں گھریلو تشددکی 13,000 شکایات درج  ہوئیں۔ اعداد وشمار کے مطابق جب 25  مارچ سے 31 مئی 2020 تک سخت لاک ڈاؤن نافذ تھا، اس دوران  1,477  متاثرہ خواتین نے شکایات درج کروائیں۔ صوبے کے اعتبار سے خواتین پر تشدد کے سب سے زیادہ واقعات ریاست اتراکھنڈ میں پیش آئے حالانکہ وہاں کی آبادی دیگر صوبوں کی نسبت کم ہے۔

 اس کے بعد ہریانہ ہے، جو  پہلے ہی عورتوں کے ساتھ نارواسلوک کے حوالے سے خاصا بدنام ہے۔ وفاقی دارالحکومت نئی دہلی کا نمبر تیسرا ہے۔ یہ بھی بات قابل ذکر ہے کہ متاثرہ خواتین کی  86 فی صد تعداد نے اپنے تحفظ کے لیے کوئی مدد حاصل نہیں کی جبکہ 77 فیصد نے ان پر ہوئے ظلم وستم کا کسی سے کوئی تذکرہ نہیں کیا۔ تاہم گھریلو تشدد کے واقعات میں یہ غیرمعمولی اضافہ اس  بڑے برفانی تودے کی طرح ہے، جس کا ایک چھوٹا سا سرا ہی سمندر کی سطح پر نظر آتا ہے۔ حقیقت میں یہ تعداد لاکھوں میں ہو گی۔

Zeenat Akhte
زینت اختر، بلاگرتصویر: privat

میں نے ابتدا میں، جس واقعے سے اپنی بات شروع کی ہے وہ معاملہ ملک کے دوسرے بڑے صوبے مدھیہ پردیش کے دارالحکومت بھوپال کا ہے، جہاں انڈین پولیس سروس سے تعلق رکھنے والے افسر پروشوتم شرما پر اپنی بیوی کے ساتھ مار پیٹ کرنے کا کیس درج ہوا۔ وہ ڈائریکٹوریٹ آف پبلک پراسیکیوشن کے سربراہ ہیں۔ حالانکہ ان کی شادی کو ہوئے 32 سال ہو رہے ہیں۔ اپنی ماں کے ساتھ ہو رہی اس مارپیٹ کے بارے میں تحریری شکایت خود ان کے بیٹے پارتھ گوتم شرما نے صوبہ کے وزیراعلی، وزیر داخلہ اور صوبہ کے پولیس سربراہ سے کی ہے۔ بیٹا بھی انڈین رینیو سروس کا افسر ہے۔ مزید افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ واقعہ ایک ایسے خاندان میں پیش آیا، وہ اعلی تعلیم یافتہ اور اعلی سرکاری عہدوں پر فائز ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

جرمنی میں خواتین کا قتل اور گھریلو تشدد کی شرح بلند

گھریلو تشدد: مردوں کے لیے ملک گیر ہیلپ لائن قائم

میں اس پہلو کا مشاہدہ کرتی ہوں کہ خواتین کے خلاف جرائم کے حوالے سے عموماً زنا الجبر اور جنسی تشدد کے واقعات ہی اخبارات کی سرخیاں بنتے ہیں۔ مگر گھرکی چار دیواری میں ان پر ہونے والے جسمانی اور ذہنی تشدد کے معاملے دب کر رہ جاتے ہیں۔ حالانکہ خواتین کے خلاف جرائم میں سب سے زیادہ کیسز گھریلو تشدد کے ہیں۔

 نیشنل کرائم ریکار ڈ بیورو نے سال 2019 کے جو اعداد وشمار جاری کیے تھے، ان کے مطابق خواتین کے خلاف جرائم کے چار لاکھ سے زائد کیس درج ہوئے۔ ان میں سے  تقریبا ایک لاکھ چھبیس ہزار گھریلو تشدد کے معاملے ہیں۔

بہرحال یہ بھی حقیقت سامنے رہنی چاہیے کہ متاثرین میں سے صرف سات فی صد خواتین ہی شکایت درج کرواتی ہیں۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ مسلم خاندان بھی لاک ڈاؤن کے منفی اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکے۔ گو بھارتی حقوق نسواں کمیشن نے مذہب کی بنیاد پر اعداد و شمار جاری نہیں کیے ہیں مگر ان کے مطالعے سے اس تشویش ناک رجحان کی تصدیق ہوتی ہے کہ مسلم معاشرہ بھی اس رجحان کا شکار ہوا۔ اسی کے پیش نظر بھارت کی ایک دینی و سماجی تنظیم جماعت اسلامی ہند کے خواتین ونگ نے 'مضبوط خاندان، مضبوط ملک‘  کے عنوان سے انیس تا اٹھائیس فروری تک ایک ملک گیر مہم چلانے کا اعلان کیا ہے۔ 

بلا شبہ خاندان انسانی معاشرے کا ایک بنیادی اور اہم ادارہ ہے۔ خاندانی نظام کو بحسن و خوبی چلانے کے لیے افراد خاندان کے درمیان خوشگوار باہمی تعلقات بہت ضروری ہیں۔ شوہر اور بیوی کے تعلقات خاندان کے وجود میں آنے کا ذریعے ہیں۔ مرد اور عورت رشتہ ازدواج میں منسلک ہوکر تہذیب کے فروغ و ارتقا کے عمل کو آگے بڑھاتے ہیں۔ شوہر اور بیوی کے تعلقات، جس قدر محبت، شفقت،  اعتماد، بھروسے اور ایثار و قربانی کے جذبات پر استوار ہوں گے، خاندان اسی قدر مضبوط اور مستحکم ہو گا۔ ایک طرف تو خواتین زبانی، جسمانی، جنسی، نفسیاتی اور معاشی استحصال کا شکار  ہوتی ہیں تو دوسری طرف مرد بھی ایسے ہی مسائل سے دوچار ہیں، جن کی رپورٹیں شرمندگی اور بے عزتی کے خوف سے منظر عام پر نہیں آتیں۔

پولیس افسر پروشوتم شرما کے اپنی بیوی کو پیٹنے کے واقعے پر مجھے کچھ زیادہ حیرت نہیں ہوئی کیونکہ معاشرے میں پھیلی ہوئی مردانہ سوچ اس کے لیے ذمہ دار ہے۔ مرد عورتوں کو عموماً  اپنی جاگیر سمجھتے ہیں۔ چنانچہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں اس کی کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے کہ وہ اپنی بیوی  کے ساتھ جیسا  چاہیں سلوک کریں، اسے مارے پیٹیں۔ چاہیے آپ کسی سماجی طبقہ سے تعلق رکھتے ہوں، اعلی تعلیم یافتہ اور اعلی عہدوں پر فائز ہوں۔ جب اس واقعے کی  ویڈیو عام ہوئی تو خود پروشوتم شرما نے بڑی ڈھٹائی سے اپنا دفاع کیا اور اپنی بیوی کو اس کے لیے مورد الزام ٹھہرایا۔

 اور تو اور سوشل میڈیا پر متعدد صارفین نے اس پولیس افسر کی حمایت کی اور کہا کہ ان کی  بیوی ہی اس سب  کے لیے  ذمہ دار ہے کہ اسی نے ہی اپنے شوہر کو ایسا کرنے پر اکسایا اور یہ کہ مردوں کو ہی ہمیشہ قصوار ٹھہرایا جاتا ہے۔ یہ تبصرے معاشرے میں مردانہ سوچ کتنی گہری ہے، اس کے عکاس ہیں۔ انہیں یہ نظر نہیں آرہا ہے کہ جب پولیس کا ایک افسر ہی قانون توڑے گا، جس کی حفاظت کا اس نے حلف اٹھایا ہے تو عام آدمی سے کیسے بھلے کی توقع کی جا سکتی ہے؟

ہمیں یہ بات بھولنی نہیں چاہیے کہ خاندان میں جس طرح کے افراد پروان چڑھتے ہیں، اسی طرح کا معاشرہ بھی تشکیل پاتا ہے اور  اس کا عکس زندگی کے تمام شعبوں بشمول عدلیہ اور قانون ساز اداروں میں نظر آتا ہے۔