بھارت کی ’ان چاہی‘ لڑکیاں
29 جنوری 2018بھارت میں اکثر والدین بیٹے پیدا کرنے کی خواہش کرتے ہیں جنہیں جائیداد کا وارث اور خاندان کا کفیل سمجھا جاتا ہے۔ دوسری جانب لڑکیوں کو معاشی بوجھ سمجھا جاتا ہے کیوں کہ ان کی شادیوں کے وقت ان کے ساتھ بھاری جہیز بھی دینا پڑتا ہے۔
بھارت میں قبل از پیدائش بچے کی جنس کے بارے میں جاننا غیر قانونی ہے۔ لیکن اس کے باوجود غیر قانونی طور پر حمل ضائع کرانے کے باعث بھارت میں ہر ایک ہزار لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی پیدائش کا تناسب 940 ہے۔ بھارت میں سالانہ اقتصادی سروے کے مطابق اکثر والدین تب تک بچے پیدا کرتے رہے جب تک کہ ان کے ہاں بیٹے کی پیدائش نہ ہوئی۔
اس اقتصادی سروے کے مطابق اکثر وہ والدین مزید بچے پیدا نہیں کرتے جن کے ہاں بیٹے کی پیدائش ہو جاتی ہے۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں شادی شدہ جوڑوں خصوصی طور پر عورتوں پر بیٹا پیدا کرنے کا شدید دباؤ ہوتا ہے۔ اکثر دیہی علاقوں میں لڑکیوں کو اسکول بھی نہیں بھیجا جاتا اور ان کی کم عمری میں ہی شادی کرادی جاتی ہے۔ اس اقتصادی سروے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یہ رجحان صرف غریب خاندانوں میں ہی نہیں بلکہ امیر خاندانوں میں بھی پایا جاتا ہے۔
کئی تحقیقاتی رپورٹس نے یہ ثابت کیا ہے کہ جنس کی بنیاد پر حمل ضائع کرنے کا رجحان پورے ملک میں عام ہے۔ 2011ء میں برطانوی میڈیکل جریدے کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ تیس برسوں میں بھارت میں تیس لاکھ بچیاں حمل ضائع کرانے کے باعث پیدا ہی نہیں ہو پائیں۔